کیا تہبند یا سروال ٹخنوں سے نیچے رہنے پر نماز نہیں ہوگی ؟

0
1884

از : مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آباد ، تینگن گنڈی ، بھٹکل ، امام و خطیب جامع مسجد محمد عشیر علی سلیمان المزروعی ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارات . 

اس سوال کے جواب پر احادیث کی روشنی میں سیر حاصل تفصیل ملاحظہ فرمائیں .

حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے ( اپنے ٹخنوں سے نیچے ) اپنی چادر کو لٹکا کر نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا! ” جاؤ اور وضو کرو ” اس شخص نے جاکر وضو کیا اور آیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا! ” جاؤ اور وضو کرو ” تب ایک شخص نے عرض کیا! یارسول اللہ! کیا بات ہے آپ نے اسے وضو کرنے کا حکم دیا پھر اس کے تعلق سے خاموش رہے؟ فرمایا! ” وہ اپنی چادر لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا ، اور اللہ کسی ( چادر ) لٹکائے ہوئے آدمی کی نماز قبول نہیں کرتا . ( حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے ) .

اس حدیث کو لیکر سوشئیل میڈیا پر یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ ایسے آدمی کی نماز صحیح نہیں ہوتی ، لیکن کیا واقعی میں مُسْبِلِ ازار کی نماز صحیح نہیں ہوتی؟

جماہیر اہل سَلَف وخَلَف کے نزدیک اپنی چادر کو لٹکا کر پڑھی ہوئی نماز صحیح ہوتی ہے ، من جملہ ان میں ائمۂِ مذاہب بھی شامل ہیں ، البتہ امام ابن حزم سے نماز کے بطلان کا قول ملتا ہے .

مُسْبِلِ ازار کی عدم بطلانِ نماز پر دلائل

اَوَّلًا : ابوہریرہ سے روایت کردہ یہ حدیث ضعیف ہے ، نفسِ حدیث کو امام احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے لیکن ایک دوسرے صحابی سے ، اسی طرح نسائی نے ” الکبرَى ” میں اور بیہقی وغیرھما نے . اور اس حدیث کو ابوداؤد نے اور بیہقی نے کبری اور شعب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے . اور یہ دونوں ایک ہی حدیث ہیں . ( اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ) .

ثانيًا : ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث : اس حدیث کو ابوداود نے اپنی ” سنن ” میں ، بزار نے اپنی ” مسند ” میں اور نسائی نے ابوعوانہ کے طریقہ سے ، عاصم الاحول سے ، عثمان سے ، ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ، ان کے الفاظ یہ ہیں ” مَنْ اَسْبَلَ اِزَارَهُ فِيْ صَلَوتِهِ خُيَلَآ ءَ ، فَلَيْسَ مِنَ اللهِ فِيْ حَلٍّ وَلَا حَرَامٍ “. جو شخص اپنی نماز میں اپنی چادر ( یاتہبند یا شلوار یا پینٹ وغیرہ ) کو تکبرانہ طور پر ( ٹخنوں سے نیچے ) لٹکائے ہوئے نماز پڑھتا ہے تو اللہ کی طرف سے ( اس کے جنت ، یا ایسے شخص اور برائی کے ) کسی حلال یا حرام میں کوئی چیز نہیں .

ابوداود نے اس حدیث کو روایت کر نے کے بعد کہا کہ اس حدیث کو ایک جماعت نے عاصم سے ابن مسعود پر موقوفًا روایت کیا ہے جن میں حماد بن سلمہ ، حماد بن زید ، ابوالاحوص اور ابو معاویہ شامل ہیں . ابوداؤد نے اس حدیث کو ” باب الاسبال فی الصلاة ” کا عنوان دیا ہے . اس حدیث کو ” امام حافظ زکی الدین عبدالعظیم بن عبدالقوی المنذری ” نے اپنی مشہور تصنیف ” الترغیب والترھیب ” میں ” الترغیب فی القمیص ” کے عنوان سے ذکر کیا ہے . لیکن یہاں لفظ فی حل کے بعد صرف ولا کے الفاظ پر حدیث ختم ہوئی ہے ، شاید ” حرام ” کا لفظ نسخہ میں نہ آیا ہو . ( حدیث/3141 ) . آگے لکھتے ہیں کہ ایک جماعت نے اس حدیث کو ابن مسعود پر موقوفًا روایت کیا ہے . {(ج/3 ، ص/62 ) .

پھر اس کے نیچے ہی ( کچھ حروف کے اختلاف کے ساتھ ) ابوداؤد کی وہی حدیث لکھتے ہیں جس کو امام نووی نے ریاض الصالحین میں لکھا ہے ، حدیث یہ ہے ” عن ابی ھریرة رضی الله عنه قال! بینما رجلٌ یصلی مسبلٌ ازارَہ ، فقال ( ریاض میں قال کا لفظ ہے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ” اِذھب فتوضاْ ” فذھب فتوضا ثم جاء ، ثم قال له ( ریاض میں فقال آیا ہے ) ” اذھب فتوضا ” فقال له رجل آخَرُ ( لفظِ آخر ریاض میں نہیں ) یارسول اللہ! مالك اَمَرْتَه ان یتوضا ثم سکتَّ عنه ؟ قال! ” اِنَّه کان یصلی وھو مسبل ازارہ ، وان الله لایقبل صلوة رجل مسبل “.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے کہ اس دوران ایک شخص اپنی چادر کو لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” جاؤ اور وضو کرو ” وہ شخص گیا وضو کیا پھر آیا ، پھر آپ نے اس سے فرمایا!” جاؤ پس وضو کرو ” تب ایک شخص نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے عرض کیا! یارسول اللہ ! کیا معاملہ ( کیابات ) ہے کہ آپ نے انھیں وضو کرنے کا حکم دیا پھر ان کے تعلق سے خاموش رہے ؟ فرمایا! ” کہ وہ اس حالت میں نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی چادر لٹکی ہوئی تھی ، اور یہ کہ بیشک اللہ ( تعالیٰ ) کسی چادر لٹکائے ہوئے شخص کی نماز قبول نہیں فرماتا . ( اس حدیث کو ابوجعفر المدنی نے روایت کیا ہے ، اگر وہ محمد بن علی بن حسن ہیں تو ان کی روایت ابوہریرہ سے مرسل ہے ، اور اگر ان کے علاوہ ہیں تو میں انھیں نہیں پہچانتا . ( الترغیب والترھیب/63 ) .

اس حدیث کو امام نووی نے روایت کرکے کہا کہ اس حدیث کو ابوداؤد نے شرط مسلم پر صحیح رہنے والی اِسناد سے روایت کیا ہے . ( لیکن امام نووی کو صحیح کا وہم ہوا ہے ، کیونکہ یہ حدیث ضعیف ہے ، جیسا کہ گذرا ) . بزار کہتے ہیں کہ ہم اس کلام ( حدیث ) کو ان الفاظ سے عبداللہ کے علاوہ کسی اور نے روایت کیا ہے ، نہیں جانتے .

کئی ایک نے اس حدیث کو عاصم سے ابوسفیان سے عبداللہ سے موقوفا روایت کیا ہے ، اور انھوں نے اس کو ابوعوانہ کی طرف منسوب کیا ہے . بیہقی نے اس کو ” الکبری ” میں موقوفا روایت کیا ہے ، ھناد نے ” الزھد ” میں ، طبرانی نے ” الکبیر ” میں اور ابوداؤد الطیالیسی نے عاصم الاحول کے طریقوں سے روایت کیا ہے .

بعض محدثین نے ابن مسعود کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے . ( لیکن اس حدیث میں نماز کے مقبول نہ ہونے کے الفاظ نہیں آئے ہیں اور نہ ہی وضو کے دہرانے کے ، تو کسی صورت میں بھی یہ حدیث مسبل ازار کی نماز کے عدم مقبولیت پر دلالت نہیں کرتی ) .

ثالثًا : عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث ، جس کو ابن خزیمہ نے اپنی ” صحیح ” میں روایت کیا ہے ، الفاظ یہ ہیں ” لا ينظر الله الی صلوة رجل یجر رداءہ بطرا “. اللہ اس شخص کی نماز کی طرف نہیں دیکھتا جو گھمنڈانا اپنی چادر کو کھینچے ( لٹکائے ) ہوئے نماز پڑھتا ہے . ابن خزیمہ نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہا کہ اس اسناد میں انھوں ( ائمہ حدیث ) نے اختلاف کیا ہے ، بعضوں نے کہا کہ اس حدیث کو عبداللہ بن عمر سے نقل کیا گیا ہے .

ایسے میں دونوں حدیثوں کے طُرُق کو جمع کرنے کی ضرورت درپیش ہوتی ہے تاکہ عبداللہ بن عَمْرو اور عبداللہ بن عمر والی حدیثوں کے درمیان ربط پیدا کیا جاسکے اور یہ دیکھا جائے کہ ان دونوں میں سے کونسی حدیث مُرَجَّح ہے ؟ یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ صحیحین وغیرھما میں ابو ہریرہ اور عبداللہ بن عمر کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کردہ وہ صحیح احادیث آئی ہیں جن میں ” الصلوة ” کا لفظ نہیں ہے . الفاظِ حدیث یہ ہیں ” لاینظر الله یوم القیامة الی من جر ثوبه خیلاء “. اللہ روز قیامت میں اس شخص کی طرف ( نظرِ رحمت سے ) نہیں دیکھے گا جو اپنے کپڑے کو تکبرانہ کھینچ ( کر چل ) تا ہے .( ایسے میں ان صحیح احادیث کے سامنے ابن عمرو اور ابن عمر کی وہ حدیث نہیں ٹہرتی جس میں نماز کا ذکر آیا ہے )

مذکورہ ابو ہریرہ کی حدیث کی سند اور متن کے ظاہر میں نکارت ہے . سند کے اعتبار سے اس طرح کہ ابوجعفر شہر میں رہنے والے آدمی تھے ، اس لئے وہ مجہول تھے اسی طرح ان کے تعلق سے ابہام پیدا ہونا اقرب ہوا ، اس کے ساتھ ساتھ وہ اس حدیث میں عطاء بن یسار سے نقل کرنے میں تنہا پڑگئے ہیں . رہی بات متن کے منکر ہونے کی ، کہ اس میں ظاہری نکارت ہے ، کیونکہ اسبال ( کپڑے کو لٹکانا ) کے ساتھ وضو کا کوئی تعلق نہیں حتی کہ اس شخص کو اس وجہ سے دو مرتبہ وضو کو لوٹانے کے لئے بھیجا جائے کہ اس نے اپنے کپڑے ٹخنوں کے نیچے لٹکا رکھے تھے . پھر اس کے ساتھ یہ ( وضو کولوٹانے کی ) تعلیل بھی صدرِ حدیث ” انه کان یصلی وھو مسبل ازارہ وان الله لایقبل صلوة رجل مسبل ” کے مخالف ہوتی ہے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنے کی تعلیل یہ نہیں بتائی کہ وہ مسبل ازار تھا اس لئے وہ وضو کو لوٹائے ( کیونکہ ازار کے لٹکانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ) اور یہ کہ اللہ چادر لٹکائے ہوئے شخص کی نماز کو قبول نہیں کرتا . واللہ تعالی اعلم ونسبة العلم الیه اثبت واسلم . سو جو حدیث سَنَدًا اور مَتَنًا کمزور ہو وہ کسی مسئلہ میں حجت کیسے بن سکتی ہے ؟

خیر سے امام نووی نے اس کی اسناد کو شرطِ مسلم پر صحیح قرار دیا ہو ، لیکن آپ رحمہ اللہ کو اس حدیث کی سند میں وہم ہوا ہے ، اور حدیث صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے . بات گذری کہ حدیث ابوجعفر کی روایت سے غیر منسوب ہے اور وہ مجہول ہیں ، اور اس میں ایک اور علت یہ ہے کہ یہ یحی بن ابی کثیر کی مذکور ابوجعفر سے عنعنہ سے روایت کردہ ہے ، اور یحیی مُدَلّس ہیں ، اور مدلس جب صراحت کے ساتھ سنی ہوئی بات نہیں کرتا تو اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا مگر اس سے جو صحیحین میں ہے .

حدیث کے صحیح ہونے کی فرضیت پر اس کے معنی کو تغلیظ اور تشدید پر رکھا جائے گا تاکہ ایسا شخص پھر اپنی چادر ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر نماز نہ پڑھے . رہا اس کی نماز کے صحیح ہونے کا مسئلہ سو یہ صحیح ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ شخص کو نماز کے لوٹانے کا حکم نہیں دیا ، آپ نے تو اسے صرف وضو کو لوٹانے کا حکم دیا ، ( شاید اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہو ، چونکہ وضو کرنے والے کے گناہ وضو کے قطروں کے ساتھ دھل جاتے ہیں اس طرح اس کے گناہ کچھ کم ہوئے ہوں ) اور نماز کا قبول نہ ہونا اس کے تمام موارد ( ذرائع ) میں نماز کے باطل ہونے کو لازم نہیں کرتا . یہ مسئلہ ایسا ہی ہے جیسا عَرَّاف ( مُنَجِّم ) کے پاس جاکر اپنی قسمت کے تعلق سے پوچھنے والا ، جس کے تعلق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی چالیس دنوں کی نمازیں مقبول نہیں ہوتیں . الفاظِ حدیث یہ ہیں صَفِيَّہ بنت ابوعبید نے بعض ( کسی ) ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ورضی عنہا سے نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” مَنْ اَتَى عَرَّافًا فَسَاَلَهُ عَنْ شَيْئٍ فَصَدَّقَهُ ، لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَوةٌ اَرْبَعِيْنَ يَوْمًا”. جو شخص کسی ستارہ شناس کے پاس آیا اور اس سے کسی چیز کے متعلق پوچھا اور اس کو سچ جانا تو اس کی چالیس دنوں کی نمازیں نہیں قبول کی جائیں گی . ( مسلم )

امام نووی رحمہ اللہ نے اِس پر اجماع کی حکایت کی ہے کہ ایسے شخص کو اعادۂ نماز کا حکم نہیں دیا جائے گا ، البتہ زَجْرو تحذیر ( ڈانٹ اور تخویف ) آنے کی وجہ سے اس کے ثواب فوت ہوں گے ۔ اور اسی طرح ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے اس کو ( نماز کے ) لوٹانے کا حکم نہیں دیا ، تو یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُس شخص کو وضو کو لوٹانے کا حکم دینا صرف زجر اور تحذیر تھی . کہ شاید اس کا دوبارہ وضو کرنا اس کے گناہوں میں کچھ تخفیف کرے .

حاصلِ مسئلہ

مسئلہ کا حاصل یہ ہے کہ چادر تہبند یا شلوار وغیرہ کا ٹخنوں کے نیچے لٹکا کر نماز پڑھنے سے نماز کی صحت میں کوئی فرق نہیں آئے گا ، اس سے نماز باطل ہوتی ہے اور نہ وضو ٹوٹتا ہے ، بات گذری کہ وضو ٹوٹنے کے تعلق سے آئی ہوئی حدیث ضعیف ہے اور ضعیف حدیث سے استدلال نہیں کیا جاسکتا .

دوسری قسط

تکبر کے طور پر ٹخنوں کے نیچے کپڑے لٹکا کر کھینچتے ہوئے چلنا حرام ہے اور بغیر تکبر کے مکروہ

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مردوں کے لئے تکبر کے طور پر ٹخنوں سے نیچے لباس ، چادر ، تہبند ، شلوار ، پینٹ ، کندورا اور بشت وغیرہ پہننا حرام ہے ، مطلق طور پر پہننے پر حرام نہیں . درجِ ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہوئے .

پہلی حدیث : عن ابی ھریرة رضی الله عنه اَنَّ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قال! ” لَا يَنْظُرُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اِلَى مَنْ جَرَّ اِزَارَهُ بَطَرًا “. اللہ ( جل جلالہ ) روزِ قیامت میں اُس شخص کو (بنظرِ رحمت ) نہیں دیکھے گا جو اپنے لبادے ( تہبند، چادر ) کو تکبر کرتے ہوئے ( ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر ) کھینچتا ہے . ( حدیث کو بخاری ومسلم نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ) . ( مذکور حدیث میں رسول اللہ نے ” بَطَرًا ” کے الفاظ استعمال کئے ہیں جو گھمنڈ ، تکبر اور اتراہٹ وغیرہ کے معنی میں آتے ہیں ، یعنی تکبر کے طور پر لبادہ ٹخنوں سے نیچے پہننا حرام ہے . جیسا کہ دوسری آنے والی احادیث میں بھی آیا چاہتا ہے )

دوسری حدیث : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” لا ینظر الله یوم القیامة الی من جر ثوبه خُيَلَآءَ “. جو شخص گھمنڈ سے ( ٹخنوں کے نیچے ) اپنے کپڑے کو کھینچ ( تے ہوئے چل ) تا ہے تو اللہ اس کو روز قیامت میں نہیں دیکھے گا . ( مالک بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے )

تیسری حدیث : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” بینما رجل یمشی فی حُلَّةٍ تُعْجِبُهُ نَفْسُهُ مُرَجِّلٌ رَاْسَهُ يَخْتَالُ فِيْ مِشْيَتِهِ اِذْ خَسَفَ اللهُ بِهِ ، فَهُوَ يَتَجَلْجَلُ فِى الْاَرْضِ اِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ “. اس دوران کہ ایک شخص ایک ( خوبصورت ) سوٹ میں خود میں مست ہوکر اپنے سر میں کنگھی کئے ہوئے اترا تے ہوئے چل رہا تھا تبھی اللہ نے اس کو دھنسا دیا ، سو وہ روز قیامت تک زمین میں (چیختے چلاتے ہوئے ) دھنستا رہے گا . ( بخاری و مسلم )

چوتھی حدیث : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” بینما رجل یجر ازارہ من الخیلاء خُسِفَ به ، فھو یتجلجل فی الارض الی یوم القیامة “. اس دوران کہ ایک شخص گھمنڈ کے ساتھ اپنے تہبند کو کھینچتے جارہا تھا کہ وہ زمین میں دھنسایا گیا ، سو وہ روز قیامت تک ( بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے ) زمین میں دھنستا جائے گا . ( بخاری )

پانچویں حدیث : امام حافظ منذری نے ان ہی ( ابن عمر ) رضی اللہ عنہما سے اسی حدیث کو ” مِمَّن کان قبلکم ” کی زیادتی کے ساتھ لایا ہے جس کو امام نسائی نے روایت کیا ہے . الفاظ حدیث یہ ہیں ” بینما رجل ممن کان قبلکم یجر ازارہ من الخیلاء خسف به، فھو یتجلجل فی الْاَرْضِ الی یوم القیامة ” اس اثناء کہ تم میں سے پہلے گزرنے والا ایک شخص اتراتے ہوئے ( گھمنڈ اور تکبر کے ساتھ ) اپنے لبادہ کو کھینچتے ہوئے جارہا تھا کہ اس کو دھنسایا گیا ، سو وہ زمین میں روز قیامت تک دھنستا جائے گا . (نسائی وغیرہ) . [ حاشیہ میں دیا ہے کہ وہ قارون تھا جس کو اللہ عزوجل نے اپنے مال کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا جب وہ اپنی تمام تر زیب وزینت کے ساتھ اتراتے ہوئے فخریہ انداز میں موسی علیہ الصلوة والسلام کے سامنے سے گزر رہا تھا ]

کپڑا ٹخنوں سے اوپر یا ٹخنوں تک پہن سکتے ہیں اس سے اترا ہوا کپڑا جہنم میں ہوگا .

چھٹی حدیث : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” مااسفل من الکعبین من الازار ففی النار “. لبادہ کا ٹخنوں سے نیچے اترا ہوا حصہ جہنم میں ہوگا . ( بخاری و نسائی )

ساتویں حدیث : سیدنا علاء بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے ، میں نے ابو سعید سے اِزَار کے تعلق سے پوچھا تو وہ کہنے لگے! اس کے تعلق سے بتانے والے کو تم نے ساقط کر ( کھو ) دیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اُزْرَةُ المؤمِنِ الی نصف الساق ولا حرج “. مؤمن کا لبادہ ( تن پوش ، تہبند ، لنگی یا شلوار ) آدھی پنڈلی تک رکھنے میں کوئی حرج نہیں . یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا! ” لاجناح علیه فیما بینه وبین الکعبین ، وما کان اسفل من ذالك فھو فی النار ، ومن جر ازارہ بطرا لَمْ يَنْظُرِ اللهُ الیه یوم القیامة “. اُس پر اس کے اور دو ٹخنوں کے درمیان ( پہننے ) میں کوئی حرج نہیں ، اور اس سے جو نیچے ہوگا وہ آگ میں ہوگا ، اور جو شخص اتراتے ہوئے اپنی ازار پہنے گا تو روز قیامت میں اللہ اس کی طرف نہیں دیکھے گا . ( یعنی ایسے شخص کے لئے اس کی رحمت و مغفرت نہیں ہوگی ) . ( مالک ، ابوداؤد نسائی ، ابن ماجہ اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو روایت کیا ہے) .

آٹھویں حدیث : سیدنا ابوذر غِفَارِيِّ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا! ” ثلاثة لا یکلمھم الله یوم القیامة ، ولاینظر الیھم ، ولا یزکیھم ، ولھم عذاب الیم ” تین ( لوگ ایسے ہوں گے ) کہ جن سے اللہ روز قیامت میں بات نہیں کرے گا ، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا ، اور اُنہیں دردناک عذاب ہوگا ” کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو تین مرتبہ فرمایا! ابوذر کہتے ہیں وہ نامراد ہوئے اور انہوں نے نقصان اٹھایا ( پوچھا ) وہ کون لوگ ہیں یا رسول اللہ! فرمایا! ” اَلْمُسْبِل ، وَالْمَنَّانُ ، وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَهُ بِالْحِلِفِ الْكَاذِبِ ” لٹکانے والا ، احسان کرکے جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامانِ تجارت فروخت کرنے والا ” ایک روایت میں ” المسبل ازارہ ” اپنا لبادہ لٹکانے والا آیا ہے . ( مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ) .

حافظ منذری ” المسبل ” کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” وہ شخص جو اپنے کپڑے کو لمبا رکھتا ہے اور اس کو زمین تک چھوڑ دیتا ہے ، گویا کہ وہ ایسا اتراتے اور تکبر کرتے ہوئے کرتا ہے ۔ ( الترغیب والترھیب ،ج/3 ، ص/59 )

مذکورہ صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ تکبر ، گھمنڈ اور اتراتے ہوئے لمبا کپڑا شلوار بشت کندورا لنگی اور پینٹ وغیرہ پہننا حرام ہے ، اگر کوئی شخص مطلقاً کوئی کپڑا پہنتا ہے اور اس کے دماغ میں گھمنڈ جیسی کوئی چیز نہ ہو تب یہ قطعاً حرام نہیں ہوگا ، جیسا کہ ابن عمر ، ابو ہریرہ ، ابوذر غفاری اور علاء بن عبدالرحمن وغیرہم رضی اللہ عنہم کی صحیح احادیث میں گذرا ۔ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطر ، خیلاء اور مخیلہ کے الفاظ استعمال کئے ہیں جن کے معنی گھمنڈ ، اتراہٹ ، خود پسندی اور تکبر کے آتے ہیں ، اور یہ الفاظ متفق علیہ ، بخاری ، مسلم ، ابوداؤد اور ترمذی وغیرہم کی روایت کردہ صریح اور صحیح احادیث میں آئے ہیں ، یعنی گھمنڈ اور کِبْر کے ساتھ ٹخنوں سے نیچے کپڑے لٹکا کر چلنا ہی حرام ہے ، ورنہ نہیں ۔ واللہ اعلم ۔

جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے ” ریاض الصالحین ” میں باب باندھا ہے . ” باب صفة طول القمیص والکم والازارو طرف العمامة وتحریم اسبال الشیئ من ذالك علی سبیل الخیلاء وکراھته من غیر خیلاء ” یہ باب کرتہ آستین ازار اور دستار کی لمبائی کی صفت پر اور ان میں سے کسی کو تکبرانہ طور پر لٹکانے کے حرام ہونے اور بغیر گھمنڈ کے لٹکانے پر مکروہ ہونے کے سلسلہ میں باندھا گیا ہے .

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہنے ہوئے کپڑے لمبے ہوا کرتے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ابو بکر ان ( تکبرانہ لمبے کپڑے پہننے والوں ) میں سے نہیں ہیں . حدیث یہ ہے

نویں حدیث : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” من جر ثوبه خیلاء لم ینظر الله الیه یوم القیامة ” جو شخص تکبر کرتے ہوئے اپنے کپڑے کو کھینچتا ہے تو اللہ روز قیامت میں اس کی طرف نہیں دیکھے گا . تب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا! یارسول اللہ! میرا لبادہ تو لٹکتا ہے ، مگر یہ کہ میں اس ( لپیٹنے اور کوتاہ کرنے ) کا عہد کرتا ہوں ، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا! ” اِنَّكَ لَسْتَ مِمَّنْ يَّفْعَلُهُ خُيَلَآءَ ” تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو گھمنڈی لوگ کرتے ہیں . ( مالک ، بخاری اور الفاظ اِن کے ہیں ، اور مسلم ابوداؤد ترمذی اور نسائی )

مذکورہ احادیث اس بات پر دال ہیں کہ اپنے ملابس کو ٹخنوں کے نیچے تک تکبرانہ پہننا ہی حرام ہے ، تکبر کے بغیر پہننا حرام نہیں ، البتہ اپنے کپڑوں کو ٹخنوں کے اوپر تک پہننا زیادہ بہتر اور تقوی والی بات ہوگی .

سوشیل میڈیا پر بعض لوگوں کا آدھی پنڈلیوں تک ہی کپڑے پہننے پر زور دینا حدیث کے معانی اور ان کی گہرائیوں کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے ، اس سے ایسا تصور پیدا ہوتا ہے کہ ٹخنوں تک کپڑے پہننا بھی جائز نہیں ، ایسی کوئی بات نہیں ، آپ آدھی پنڈلی تک اپنے کپڑے پہن سکتے ہیں اور بغیر کسی کراہت کے ٹخنوں تک بھی ۔ اگر بات خود اس ناچیز کی کی جائے تو میں خود بھی اپنے ملابس کندورا اور تہبند وغیرہ ٹخنوں سے صرف ایک دیڑھ انچ ہی اوپر پہنتا ہوں ، بلکہ مجھے اسی میں زیادہ مروئت اور شرافت نظر آتی ہے ، کیونکہ آدھی پنڈلیوں یا اس سے اوپر کندورا یا شلوار پہننے والے بعض لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ جب وہ رکوع میں جاتے ہیں تو پیچھے سے انکی ران وغیرہ نظر آتی ہے ، اسی طرح سجدہ کی حالت میں بھی ایسا ہوسکتا ہے ، لہذا بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے ٹخنوں تک یا ٹخنوں کے کچھ اوپر تک لباس پہنیں تاکہ اس جیسی چیز سے محفوظ رہا جاسکے ، کیونکہ گھٹنوں کے اوپر والا حصہ دوسروں کی نظر میں آجانا حرام ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجُرَيّ جابر بن سُلیم سے روایت کردہ ابوداؤد اور نسائی کی حسن صحیح حدیث میں ایک شخص سے فرمایا! ” وارفع ازارك الی نصف الساق ، فان ابیت فالی الکعبین ” اور تم اپنی ازار کو اپنی پنڈلی تک اٹھاؤ ، پس اگر تمہیں یہ ناپسند لگتا ہے تو دونوں ٹخنوں تک . ( طویل حدیث کا ایک ٹکڑا ہے ) .

از : عبدالقادر فیضان بن اسماعیل باقوی جامعہ آبادی ( بھٹکل )

12/رجب المرجب 1442 ھ بہ موافق 24/فروری 2021 ء

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here