اسلام میں پاکی اور صفائی کی اہمیت

1
20815

از : محمد زبیر ندوی شیروری

اسلام ایک ایسا پاکیزہ اور حقیقت بر مبنی مذہب ہے جو دنیا کے دیگر جمیع مذاہب میں پاکی اور صفائی کے اعتبار سے اپنا ایک خاص مزاج اور مقام رکھتا ہے .

اسلام کے علاوہ دنیا کے دیگر مذاہب میں انسان کے لئے وہ ہدایات اور تعلیمات نہیں ہیں جو اسے دنیا و آخرت میں کامیابی دلا سکیں اور اس کو روز مرہ کے تمام امور و معاملات میں ہدایت و رہنمائی مل سکے اور ایک مکمل ضابطہ حیات پورے نظم و نسق کے ساتھ میسر آسکے . منجملہ انہی میں سے ایک پاکی اور صفائی ستھرائی بھی ہے .

 اسلام انسان کے ظاہر و باطن دونوں کو سنوارتا ہے اور اسے اعلیٰ صفات سے آراستہ کرتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ ” وَثِیَابَكَ فَطَھِّرْ” یعنی آپ اپنے کپڑوں کو بھی پاک وصاف رکھیں .( سورۃ المدثر/4 )

اللہ نے انسانی جسم کو تندرست اور صحت مند رکھنے کے لئے لیل ونہار میں پاکی و صفائی کے پیش نظر دن کے مختلف اوقات میں بغیر وضو نماز کو باطل قرار دیا ہے اور پانچوں نمازوں سے قبل طہارت کو ضروری قرار دیا ہے ، چاہے وہ ناپاکی حدث اکبر ہو یا اصغر .

حدث انسان کو ناپاکی کی طرف اور طہارت پاکیزگی کی طرف لے جاتی ہے . حدث سے انسان ناپاک اور طہارت سے پاک ہوتا ہے ۔

حدث بندہ اور اس کے رب کے درمیان تعلق میں اضمحلال کا باعث بنتا ہے اور طہارت و پاکیزگی بندہ اور اس کے رب کے درمیان تعلقات کی استواری کا سبب بنتی ہے ۔ طہارت سے انسان کو رب کی معرفت ، قربت اور اس کی عبادت میں حلاوت حاصل ہوتی ہے ۔ اس لئے اسلام نے عبادات کی ادائیگی سے قبل طہارت کو ایک مستحن عمل قرار دیا .

اسلام میں طہارت کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ انسانی زندگی میں طہارت کی ضرورت اس کی ولادت سے شروع ہو کر اسکی موت تک باقی رہتی ہے ، لہذا طہارت سے وابستگی کمال حیات ہے تو طہارت سے لاتعلقی زوال حیات ہے ۔ طہارت کی پابندی صحت ہے تو طہارت سے بیزاری بیماری ہے طہارت نشاط حیات ہے تو طہارت سے غفلت ثقل حیات ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نگاہ نبوت میں طہارت وسیع المعنی لفظ ہے ، اس لئے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طہارت کو نصف ایمان قرار دیا اور فرمایا کہ ” الطهور شطر الإيمان ’’. صفائی ( پاکیزگی ) نصف ایمان ہے . 

اگر ہم اسلام کو قرآن و حدیث کی رو سے دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ وہ ایک ایسا نظافت پسند مذہب ہے جو انسان کو پیدائش سے لے کر موت تک صاف ستھرا رہنے کی تعلیم دیتا ہے ۔ اور اس میں انسانی جسم کی صفائی سے لے کر سوسائٹی ، گلی ، محلہ اور اجتماعی صفائی کے احکامات کو بھی شامل کرتا ہے ، حتٰی کہ انسان کی جملہ عبادات میں سے اہم عبادت نماز کے لئے وضو کو مشروط قرار دیتا ہے ، جس سے اسلام میں صفائی کی اہمیت کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے .

صفائی اللہ کا حکم ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل سنت اور روحانیت کی غذا ہے ۔ صفائی انسانی کشش کا سبب ہے ۔ جہاں صفائی ہوگی وہاں صحت خوشی اور خوشگوار ماحول ہو گا ، جس طرح سورج کے نکلنے سے اندھیرا چھٹ جاتا ہے اسی طرح صفائی سے بیماریاں ، غم اور اداسی کافور ہونے لگتی ہے ۔ صفائی انسان میں فرشتوں کی معصومیت ، شبنم کی شادابی ، پھولوں کا تبسم ، چاند کا حسن ، عقاب کی نظر ، شاہین کی پرواز ، چیتے کا جگر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ کی جھلک پیدا کرتی ہے . صفائی کا یہ جوہر اگر کسی قوم کے افراد میں پیدا ہوجائے تو اس قوم کے افراد علمی لحاظ سے افضل اور سرگرم ہوجاتے ہیں ۔ اخلاقی لحاظ سے بلند مرتبت اور محنت و مشقت کے عادی بن جاتے ہیں ۔ جوش کردار سے ان کے سینے معمور ہوجاتے ہیں مختصراً یہ کہ صفائی انسان کو پستی سے اٹھا کر عروج و اقبال کے تخت پر جلوہ گر کرتی ہے ۔

صفائی کے تعلق سے ایک اہم اور غور طلب بات یہ ہے کہ انسان ظاہری صفائی کے ساتھ ساتھ باطنی صفائی پر بھی زور دے ۔ اگر دل میں تعصب کا دھواں آٹھ رہا ہو اور نفرت کا لاوا پک کر دشمنی کی آگ سلگ رہی ہو تو ظاہری صفائی کے باوجود بھی دنیا جہنم بن جائے گی .

اسلام میں صفائی ستھرائی اور نظافت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے ۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو اپنے جسم سمیت اپنے آس پاس کے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا ہے . ہر سلیم الطبع انسان صفائی ستھرائی اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور گندگی ، ناپاکی اورغلاظت کو ناپسند کرتا ہے . قرآن مجید میں صاف صفائی پر کئی آیتیں موجود ہیں . جیسا کہ سورۃ التوبة میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ” وہ ایسے لوگ ہیں جو صاف ستھرے رہتے ہیں اور اللہ صاف ستھرے لوگوں کو پسند کرتا ہے “. 

دوسری جگہ ارشاد ہے ،” اللہ توبہ کرنے والوں اور خوب صاف ستھرا رہنے والوں کو پسند کرتا ہے “. 

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” صفائی آدھا ایمان ہے”. اور ایک حدیث میں فرمایا کہ ” صفائی ایمان کا حصہ ہے “. 

قرآن مجید پاکیزگی اور صفائی کا درس دیتا ہے درحقیقت یہ قانون خدا نے مومن کو صاف ستھرا اور پاکیزہ رہنے کے لئے دیا ہے اور کہا ہے کہ ” پاک صاف رہو ، اللہ پاک صاف لوگوں کو پسند کرتا ہے “. ان آیات میں ایک طرف پاکی کا حکم دیا گیا ہے تو دوسری طرف ایسے لوگوں سے اللہ کی محبت کا اظہار بھی کیا گیا ہے ۔ چنانچہ پاکیزگی کے احکام میں سے ایک حکم یہ بھی تھا ک اے نبی ﷺ! ” اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی سے بچو “. صفائی اور پاکیزگی کا پیغام حضور ﷺ نے پوری امت بلکہ پوری انسانیت تک پہنچاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ” پاکیزگی نصف ایمان ہے“. 

اسلام میں پاکیزگی کی دو قسمیں ہیں ایک روحانی اور دوسری جسمانی ۔ روح کی پاکیزگی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو تمام برائیوں سے پاک وصاف رکھے اور روح کی ناپاکی سے مراد یہ ہے کہ وہ ایسے اعمال بد کا ارتکاب کرے جن سے انسانی روح گندی اور میلی ہوتی ہے . روح کی پاکیزگی کا طریقہ یہ ہے کہ انسان ہر برائی اور گناہ سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو اچھی عادتوں اور اچھے اخلاق سے سنوارنے کی کوشش کرے . جس قدر انسان گناہوں اور برائیوں سے بچے گا اسی قدر اس کی روح پاک و صاف ہوتی چلی جائے گی اور اس کا اثر جسم کی پاکیزگی پر بھی پڑتا چلا جائے گا .

دوسری پاکیزگی جسمانی پاکیزگی ہے . جسم کی پاکیزگی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے جسم کو ظاہری ناپاکیوں سے پاک و صاف رکھے ، گندہ اور میلا نہ ہونے دے ، انسان کا لباس بھی جسم کی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کا آئینہ دار ہوتا ہے اسلام اگرچہ لباس میں شان و شکوہ ، اسرافِ بیجا اور تکلف کو پسند نہیں کرتا ، لیکن لباس میں صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا مطالبہ ضرور کرتا ہے . اور ظاہری شکل و صورت کو بھی قرینہ سے رکھنے کی تاکید کرتا ہے کیوں کہ یہ بات بھی پاکیزگی اور صفائی کے ضمن میں آتی ہے . اسلام اس کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنی شکل و حشیوں کی سی بنائے رکھے اور بدن کو میلا کچیلا اور بالوں کو پراگندہ رکھے . رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ میلا کچیلا بدن اور بکھرے بال پسند نہیں فرماتا “. ( ترمذی ) ناخنوں کے ذریعہ سے بھی بہت سی غلا ظت کھانے کے ساتھ پیٹ کے اندر جا کر معدہ کی بہت سی بیماریاں پیدا کرتی ہے اور ویسے بھی وحشیوں کی طرح ناخن بڑھائے ہوئے آدمی اچھا نہیں معلوم ہوتا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دس چیزوں کو پیغمبر کی سنت قرار دیا ہے ان میں سے ایک ناخنوں کا تراشنا بھی ہے ۔

جسم اور روح کی پاکیزگی اور صفائی کے ساتھ اسلام اس ماحول کی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کا بھی مطالبہ کرتا ہے جس میں وہ رہتا ہے .

اگر ہم دل کی بات کریں تو اسے بھی کچھ امراض لاحق ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اس میں طہارت کی کمی شروع ہوجاتی ہے جیسے جیسے دل کا مرض بڑھتا جاتا ہے تو ویسے ویسے طہارت بھی ختم ہونا شروع ہوجاتی ہے . قرآن دلوں میں ناپاکی کے امراض لاحق ہونے کی حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے کہ ” فَتَرَی الَّذِيْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ “. اگر دلوں میں نفرت ، عداوت ، کینہ ، بغض ، منافقت ، لالچ ، جھوٹ ، تکبر ، نخوت ، حسد ، گناہ ، ظلم ، شر ، فتنہ ، فساد ، دشمنی غیبت ، خیانت ، ناانصافی ، وعدہ خلافی ، معصیت ، افتراق ، انتشار ، تعصب ، بدگمانی ، دل میں کسی کے لئے نقصان کا ارادہ ، کسی سے انتقام کی خواہش وغیرہ وغیرہ ، روحانی بیماریاں پیدا ہوں تو دلوں کو بھی طہارت کی ضرورت پیش آتی ہے اور ان کو بھی ظاہری اعضاء کی طرح پاک کرنا پڑتا ہے. ظاہری طہارت عبادت کی عمارت کا ظاہر اور باطنی طہارت عبادت کی عمارت کا باطن ہے . عبادت میں جمال و کمال کی صفت کلی طہارت سے ہی پیدا ہوتی ہے .

لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ظاہری طھارت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت کا بھی خیال رکھا جائے اور اس کے لئے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی حاصل کی جائے . اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے . آمین .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here