تشہد میں اس کے آغاز ہی سے انگلی کو حرکت نہ دینے کے سلسلہ میں چند دلائل

0
1487

از : مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آباد ، تینگن گنڈی ، بھٹکل ، امام و خطیب جامع مسجد محمد عشیر علی سلیمان المزروعی أبوظبی ، متحدہ عرب امارات.

بعض حضرات تشہد میں بیٹھنے کے ساتھ ہی انگشتِ شہادت اٹھانے کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ تشہد میں بیٹھنے کے ساتھ ہی اپنی انگلیوں کو ترپن کی شکل میں بنایا جائے ، یہاں تک تو ان کا کہنا صحیح ہے ، لیکن اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ شہادت کی انگلی سے شروع ہی سے اشارہ کیا جائے ” یہ الفاظ انھوں نے اپنی طرف سے زیادہ کئے ہیں ، بھلا عام لوگوں کو کیا معلوم کہ یہ الفاظ انھوں نے اپنی طرف سے گڑھے ہیں؟ اصولِ حدیث میں ایسے شخص کو واضعِ حدیث کہتے ہیں ، یعنی حدیث کے نام پر اپنے الفاظ کہنے والا ، کیونکہ جن الفاظ کا وہ حوالہ دیتے ہیں ان میں سے کسی حدیث میں بھی یہ الفاظ موجود نہیں ہیں کہ تشہد کے آغاز ہی میں انگشت اٹھائی جائے ، پھر وہ بہت سی احادیث کا حوالہ بھی دیتے ہیں جن میں سے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کردہ ابوداؤد اور مسلم کی حدیثیں بھی ہیں. ،اور ان میں سے کسی ایک روایت میں بھی تشہد کی ابتداء میں انگلی اٹھانا ثابت نہیں ہے ، البتہ ابوداؤد کی حدیث میں شہادت کی انگشت سے صرف اشارہ کرنا ثابت ہے ،( یعنی ابتداء تشہد ہی میں اشارہ کرنے کے الفاظ نہیں آئے ہیں ) نہ تو اس میں تشہد میں بیٹھنے کے ساتھ ہی اشارہ کرنا ثابت ہے ، اور نہ ہی انگلی کو ہلاتے رہنا ثابت ہے ، اور تشہد میں انگلی اٹھانے والی سنت کو تو سبھی مانتے ہیں ، جبکہ انگلی کو حرکت دینے والی حدیث وائل بن حجر کے علاوہ کسی اور صحابی سے نہیں آئی ہے ، جس کو احمد ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ( تشہد کے لئے ) بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے ، اور اپنے بائیں ہاتھ کواپنے گھنٹے پر پھیلا کر رکھتے اور اپنے انگھوٹے کے قریب رہنے والی انگلی کو اٹھا کر اس کے ذریعہ دعا فرماتے “.

لیکن اس سلسلہ میں اس سے بھی زیادہ صحیح اور صریح حدیث مسلم اور ابوداود وغیرہ نے بھی روایت کی ہے ، اور یہ حدیث صراحتا انگلی کو تشہد کو اس کے آغاز ہی سے حرکت نہ دینے والی بات کو صراحتاً بیان کرتی ہے ، حدیث یہ ہے” حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کرتے تو اپنی انگشت سے اشارہ کرتے اور اس کو ہلاتے نہیں تھے “. ( احمد ، مسلم ، 408/کتاب المساجد ، باب صفة الجلوس في الصلاة ، ابو داؤد ، نسائی ، بیہقی ، بغوی )

یہ حدیث پہلی مذکورہ بالا پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ، زیادہ صریح اور زیادہ واضح ہے جو صریح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انگلی کو اٹھانے کے بعد حرکت نہیں دی جائے گی ، اور یہی صحیح مذہب اور اکثر علماء کا قول ہے ، جن میں ائمۂ مجتہدین بھی شامل ہیں ، اور یہ کہ انگلی کو حرکت دینا مکروہ ہے ، کیونکہ اس سے نماز کا خشوع جانے کا اندازہ ہے جو نماز کی روح ہے.

بعض حضرات اس حدیث کو نہ بتا کر لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور صرف اپنے مقاصد کی احادیث ہی بیان کرتے ہیں.

اسی طرح بعض حضرات امام احمد کی حدیث کا آخری حصہ پیش کر کے بھی لوگوں کو گمراہ کرنے کی ایک ناکام کوشش کرتے ہیں کہ انگلی کو حرکت دینا شیطان پر لوہے سے زیادہ سخت ہے، جب کہ صحیح یہ ہے کہ انگلی کو ” اشھد ان لاالہ الا اللہ ” کہتے وقت اٹھانا شیطان پر لوہے سے زیادہ بھاری ہے ، نہ کہ اس سے انگشت کو حرکت دینا مراد ہے .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here