قوم ناخدا کے مشہور و معروف مصنف و محقق کی کورونا وائرس کووڈ انیس پر تصنیف کردہ اولین تازہ ترین کتاب کا رسم اجراء

    0
    1371

    از : امژو زون ٹیم

    مؤرخہ 18/شعبان المعظم 1442 ھ مطابق یکم اپریل 2021 ء بروز جمعرات بعد نماز مغرب ، مولانا أنور داؤودی کے تعاون سے ، کاروان پاسبان علم و ادب کے زیر اہتمام ، مولانا محبوب عالم صاحب کی صدارت میں , قوم ناخدا کے مشہور و معروف مؤلف اور مصنف و محقق مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آبادی بھٹکلی مدظلہ کی کورونا وائرس کووڈ انیس پر تصنیف کردہ مفید ، مستند ، کارآمد و اولین شاہکار تازہ ترین چار سو صفحاتی کتاب بنام ” عالمى وباء كورونا اور طاعون عذاب يا رحمت ؟ ” کے رسم اجراء کی تقریب بمقام ریاست اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے علاقہ میں موجود خوبصورت و شاندار بنگلۂ داؤوی ، مولانا انور داؤودی صاحب کی زیر نظامت منعقد ہوئی ، جس میں شبلی کالج کے پرنسپال ڈاکٹر محمد سلمان صاحب کے دست مبارک سے کتاب کا اجراء کرکے اس کی رونمائی کی رسم عمل میں لائی گئی .

    در اصل اعظم گڑھ میں اس کے اجراء کا سبب کورونا کی وجہ سے مصنف کے لئے سفر کی دشواری تھا ، لہٰذا پاسبان علم وادب سے اپنے گہرے لگاؤ کی وجہ سے انھوں نے چاہا کہ پاسبان کے علماء ورفقاء کی نگرانی میں کتاب کا رسم اجرا ہوجائے ، ان کی اسی خواہش کی تکمیل کے لئے داؤد پور ، اعظم گڑھ میں یہ پروگرام منعقد ہوا .

    تقریب رسم اجراء کی خصوصی رپورٹ

    پروگرام کا آغاز ڈاکٹر نثار احمد صاحب ندوی کی پرسوز تلاوت کلام اللہ سے ہوا اور تقریباً رات ساڑھے آٹھ بجے تک چلا . بعد ازاں بارگاہِ رسالت میں مولانا بلال صاحب نے اپنی سحر انگیز آواز میں نذرانہ عقیدت پیش کیا . پھر پروگرام کے کنوینر شیخ محمد خالد اعظمی نے تعارفی کلمات پیش کر کے مولانا عبدالقادر فیضان باقوی صاحب اور ان کی کتاب کا مختصراً تعارف پیش کیا اور ساتھ ہی پروگرام میں شریک ہونے والے تمام احبابِ پاسبان کو بھی متعارف کرایا .

    تعارف کے بعد مفتی محمد یاسر صاحب نے ” وبائی امراض میں اسلامی تعلیمات ” کے موضوع پر ایک پرمغز اور علمی و کلیدی خطاب کیا .

    مفتی یاسر صاحب کے بیان کے بعد مولانا اکرم خان صاحب کو آواز دی گئی انھوں نے اپنے مخصوص انداز ترنم اور مردانہ لب و لہجہ میں اپنے والد مولانا جمیل احمد صاحب نوراللہ مرقدہ کی ایک ولولہ انگیز نظم سے اہل مجلس کو محظوظ کیا .

    مولانا اکرم خان صاحب کے بعد ناظم پروگرام نے صدر مجلس مولانا محبوب عالم صاحب کو آواز دی تو انھوں نے اپنے جامع اور عمل پر ابھارنے والے پرجوش خطاب سے اہل محفل کو گرمایا .

    صدر مجلس کے جامع خطاب کے بعد ڈاکٹر ارشد صاحب ڈائس پر تشریف لائے اور اپنا سائنٹفک تاثر پیش کیا .

    احباب کی خواہش تھی کہ پاسبان کا ترانہ بھی پڑھا جائے لہٰذا ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے مولانا بلال صاحب کو دوبارہ دعوت دی گئی اور انھوں نے پاسبان کے ترانے کو اپنے البیلے اور شاندار و مترنم انداز میں پیش کرکے محفل میں ایک سماں باندھ دیا .

    آخر میں مفتی شاکر صاحب کو دعوت سخن دی گئی انھوں نے اپنے ادیبانہ لب و لہجے میں پاسبان کے تعارف کے ساتھ تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا .

    مولانا ضیاء الحق خیرآبادی صاحب کی پرسوز دعا پر مجلس کا اختتام ہوا .

    بہترین نظامت کے فرائض مولانا انور داؤدی صاحب نے انجام دئے . پروگرام کے بعد مفتی یاسر صاحب کی امامت میں اسی جگہ عشاء کی نماز با جماعت ادا کی گئی .

    نماز سے فارغ ہونے کے بعد تمام احباب داؤد پور سے متصل انگیٹھی ڈھابہ سنجر پور کی جانب روانہ ہوگئے جہاں عشائیہ کا پرتکلف نظم تھا . احباب نے پوری بشاست کے ساتھ عشائیہ کے ساتھ انصاف کیا ، ہر ایک خوش نظر آیا جو پروگرام کی کامیابی پر دال ہے .

    ساڑھے دس بجے کے قریب شرکاء پروگرام اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے ، اس طرح مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی کے نام کا یہ پروگرام ایک یادگار پروگرام ثابت ہوا .

    اللہ تعالیٰ اسی طرح تمام پاسبانیوں میں محبت و مودت قائم رکھے اور ہر ایک کو جملہ شرور و فتن سے محفوظ فرمائے .

    پروگرام میں شرکت کے لئے انھیں احباب کو دعوت دی گئی تھی جو قریب کے تھے اور ان کی شرکت متوقع تھی . پھر بھی قریب کے بہت سے احباب رہ گئے جنھیں دعوت نامہ نہیں بھیجا جاسکا جس کے لئے معذرت ہے .

    پاسبان علم وأدب کے تمام شرکاء پروگرام کو کتاب کے مصنف مولانا عبدالقادر فیضان باقوی کی طرف سے ایک ایک کتاب ہدیتاً بھی دی گئی .

    کتاب ہذا کے مصنف کا مختصراً تعارف

    آپ کا شمار قوم ناخدا کے اوائل اکیسویں صدی عیسوی کے پہلے مؤلف و مرتب اور محقق میں ہوتا ہے ، لہٰذا آپ اپنی بعض اہم خصوصیات وکمالات کی وجہ سے واقعتاً تعارف کے حقدار بھی ہیں .

    آپ کا نام نامی و اسم گرامی مولانا عبدالقادر فیضان بن اسماعیل باقوی ہے . آپ کی پیدائش ہندوستان کی ریاست کرناٹکا کےضلع کاروار کے شہر بھٹکل کے گاؤں تینگن گنڈی میں یکم جون 1968 ء میں ہوئی . آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن کے پرائمری اردو اسکول تینگن گنڈی میں چھٹی تک حاصل کی ، پھر حفظ قرآن کے لئے اپنے ہی پیدائشی و ساحل سمندر سے متصل گاؤں کے دینی ادارہ مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن گنڈی بھٹکل میں داخلہ لیا اور حفظ قرآن کی تکمیل کی . پھر چند سالوں بعد وہاں سے دو کلو میٹر کی دوری پر آباد اس نئی بستی جامعہ آباد میں آکر بسے جو بھٹکل سے دو کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے .

    پھر عالمیت کی تعلیم کے لئے اپنے علاقہ سے تقریباً ایک ہزار کلو میٹر کی مسافت طے کر کے تاملناڈو کے شہر ویلور کے اس ” جامعة الباقیات الصالحات ” میں داخلہ لیا جس کا قیام سنہ 1856 ء یا 1858 ء میں عمل میں آیا تھا ، آپ نے وہاں فارسی کے ساتھ اس عالمیت کے کورس کی تکمیل کی جو اس وقت نو سال کا تھا ، لیکن اب سے چودہ پندرہ سال پہلے ان میں سے ایک سال گھٹا دیا گیا ہے .

    آپ نے اپنی فضیلت کی تکمیل بھی سنہ 1993 ء میں نفسِ جامعہ سے ہی کی .

    اس علمی سفر کی چند اہم یادگار چیزوں میں سے ایک اہم چیز کا تذکرہ کرتے ہوئے موصوف بیان کرتے ہیں کہ ” اس وقت کے ایک استاد کے ذریعہ میرا ایک سال ضائع کرنے کی تدبیر کی گئی تھی ، لیکن اللہ عزوجل اس وقت کے نائب ناظم کو درجۂ علیین میں جگہ دے ، ان کی کوششوں سے ایسا نہیں ہو سکا . اگر میرا وہ سال ضائع ہوتا تو میرا حوصلہ پست ہوکر میں آج عالم نہ ہوتا .

    دوسری چیز کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ک اس وقت کے تقریبا ایک سو پینتیس سال (135) سال اور آج سے تقریبا ایک سو پینسٹھ (165) سال تک کے ہزاروں علماء وفضلاء میں میں ہی ایک ایسا شخص تھا جو از ابتداء تا انتہا گیارہ سال ” جامعه باقیات صالحات ” میں پڑھا ، ابتداءاً فارسی سے آخر تک میرے دور تک اردو میں عالمیت کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے لئے کل نو اور فضیلت کے لئے دو سال ہوا کرتے تھے ، جو مجموعی اعتبار سے گیارہ سال بنتے ہیں ، لیکن میرے علاوہ کسی اور طالب علم نے گیارہ سال جامعہ میں نہیں پڑھا ، آخر دس سال ، کیونکہ پہلے تو ابتداء میں کم ہی طلباء داخلہ لیتے تھے ، دوسرے مدرسوں میں چار چار پانچ پانچ سال پڑھ کر باقیات میں امتحان دے کر اوپر کی جماعت میں شامل ہوتے تھے ، ( میرے سے سینیئر ایک لڑکا تھا ، اگر وہ فضیلت میں داخلہ لیتا تو اس کے بھی گیارہ سال ہوتے ، لیکن اس نے عالمیت پر ہی اقتصار کیا ، ( اب تقریباً پندرہ اٹھارہ سال سے ایک سال کم کردیا گیا ہے ) اور ٹامل طلباء کو فضیلت کے کل دس ہی سال ہیں ، تو اس طرح ( فیل ہوئے بغیر ) میں باقیات میں سب سے زیادہ عرصہ گزارنے والا طالب علم ہوں ، اس کا میں نے اپنے ایک استاد ( جو ناظم بھی تھے ) ذکر کیا تو انہوں نے مزاقاً کہا کہ تم فارغ ہوکر جاتے وقت ہم تمہیں پھولوں کے ہار پہنا کر بھیجیں گے ، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ” ان کا اسم گرامی حضرت مولانا کمال الدین صاحب رحمہ اللہ تھا .

    آپ نے فراغت کے تقریباً دیڑھ دو سال بعد عصری تعلیم بھی حاصل کی اور میسور کی ” منسا گنگوتری ” یونیورسٹی سے ایم اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد کمٹہ کے علاقہ بیٹکولی میں تقریباً تین سال تک امامت و خطابت کےساتھ تدریسی فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔

    پھر سنہ 1999 عیسوی میں امارات کا رخ کیا اور تقریباً دیڑھ سال بعد متحدہ عرب امارات کے صدر مقام ابو ظبی کے ادارہ ” دائرة الشؤون الاسلامیة والاوقاف ” میں امامت و خطابت کا انٹرویو دیکر کامیابی حاصل کی اور ابو ظبی میں امامت و خطابت کے منصب پر فائز ہوگئے ۔ اور الحمدللہ تاحال اسی عہدہ پر فائز رہتے ہوئے اپنی دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔

    آپ کئی ایک کتابوں کے مؤلف ومرتب بھی ہیں مثلاً فقہ شافعی پر ” فیضان الفقہ ” اور ائمۂ اربعہ کےمسالک پر مناسک حج وغيرہ ۔ اب تک آپ کی ” عالمی وباء کورونا اور طاعون عذاب یا رحمت ” کی رسم اجراء سے قبل چار تالیفات فیضان الفقہ ، فیضان الحج ، سوغات حجاج اور رمضان کے تیس روزوں پر مسجد میں پڑھے جانے والے تیس دروس کے نام سے منظر عام پر آچکی ہیں ۔

    آپ نے اپنے تعلیمی سفر کے دوران ” جامعہ باقیات صالحات ” سے اُس وقت کے درجۂ حفظ کے گجراتی استاد مشہور قاری حضرت ” مولانا معین الدین صاحب رحمہ اللہ ” کی زیرِ نگرانی قرآن کریم کے دورے کر کے ” باقیات صالحات ” درجۂ حفظ ، اور اُس وقت کے ” باقیات صالحات ” کے ایک دوسرے استاد مشہور سبعہ عشرہ کے قاری حضرت ” مولانا رفیق حضرت ویلوری ” مدظلہ العالی سے قرآتِ حفص کی سند بھی حاصل کر لی ہے .

    آپ کے قابل ذکر اساتذہ میں جامعہ کے تمام جنوبی ہند کے اساتذہ شامل ہیں ، جن میں مولانا عبدالجبار کڈپوی اس وقت کے ناظم ، مولانا کمال الدین شیخ الحدیث ان کے بعد والے ناظم ، مولانا موسی کٹی حضرت ملیباری شیخ المعقولات ومنقولات ، مولانا حنیف حضرت سبع معلقہ وغیرہ کے استاد ، مولانا سلیم ، مولانا عبدالعزيز ، مولانا ظہیر اور نبیرۂ بانی شمس العلماء اعلی حضرت میں سے مولانا رئیس حضرت اور مولانا چاند حضرت ( چھوٹی جماعتوں کے اساتذہ ) وغیرہم قابل ذکر ہیں ، جن میں سے کچھ کی وفات ہوچکی ہے ، الله جل مجدہ ان کے مراتب بلند فرمائے اور انھیں اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے .

    الحمداللہ موصوف ہمیشہ اپنی جماعت میں پہلے نمبر سے کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں ، جس کی وجہ سے آپ حسد اور شکایات کی زد میں بھی آگئے ، قریب تھا کہ ( دوران تعلیم ) آپ اپنے مادر علمی کو خیر باد کہہ ہی دیتے ، اگر انھیں اس وقت کے شیخ الحدیث ” حضرت مولانا کمال الدین صاحب ویلوری ” کی مدد اور نصرت و حمایت نہ ملتی ، اس ضمن میں وہ اپنے ایک یادگار و ناقابل فراموش واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چوتھے تعلیمی سال میں مجھ پر ایک ایسا یادگار ناقابلِ فراموش لمحہ گذرا ہے جس کو میں زندگی بھر بھول نہیں سکتا کہ کچھ اساتذہ کے بچوں کے ساتھ بعض دیگر بچوں نے مل کر میرے خلاف ناظم کے پاس غلط شکایات درج کیں جس سے دل برداشتہ ہوکر میں جامعہ چھوڑ ہی دیتا اگر نائب ناظم کی حمایت اور ان کے انصاف کے ذریعہ مجھ پر ربِّ کریم کی عنایت ومدد حاصل نہ ہوچکی ہوتی .

    دورانِ تعلیم سب سے بڑی آزمائش

    موصوف کہتے ہیں کہ یوں تو دورانِ تعلیم ایک طالب علم کے لئے گوناگوں پریشانیوں اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہی رہتا ہے ، اور پھر اگر وہ تعلیم دینی ہو تب یہ پریشانیاں دوچند ہوجاتی ہیں ، اور یہی سب کچھ میرے ساتھ بھی ہوا .

    میلادی 1982( غالبا جس سال کانگریس کی وزیر اعظم اندرا گاندھی فوت ہوئی تھیں ) میں اپنے گاؤں سے تقریبا ایک ہزار کلو میٹر دور دو لڑکوں میں سے میرا عالمیت میں اور میرے ماموں زاد بھائی شیخ یعقوب کے بڑے بیٹے شیخ اسماعیل کا ٹامل ناڈو ” ویلور ” جنوبی ہند کی مشہور ومعروف درس گاہ ” دارالعلوم جامعہ الباقیات الصالحات ” کے شعبۂ حفظ میں داخلہ ہوتا ہے ، مرورِ زمانہ اور چھوٹی موٹی آزمائشوں کے ساتھ ہمارا یہ تعلیمی سفر جاری رہتا ہے ، اس دوران دوسرے سال ہمارے ساتھ ایک اور ساتھی حافظ باوامیر پونگے بھی ہم سے جڑ گئے اور انھوں نے بھی درجۂ حفظ میں داخلہ لیا اور اپنی پرانی تعلیم جاری رکھی ، اِن دونوں پر اپنے استاد کی کافی نظرِ التفات تھی ، اس طرح ہم دو سے تین ہوگئے .

    وقت گزرتا گیا ، تیسرے سال شیخ اسماعیل مدرسہ کی تنگ زندگی کو برداشت نہ کر سکے اور ہمیں داغِ مفارقت دے گئے ، اور پھر ایک سال بعد حافظ باوامیر بھی اپنے تایا کے انتقالِ پُرملال کے بعد تعلیم کی تمام تررغبت رکھنے کے باوجود اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے ، اس زمانہ میں ہمارا رہنا سہنا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا سونا اور ضروریاتِ زندگی کے لئے بازار جانا ایک ساتھ ہوتا تھا ، اور اس دوران چند ایک اچھے لڑکے بھی ہمارے دوست بن گئے ، جن میں مولانا الیاس میسوری ، مولانا یوسف یمگنوری ، مفتی شاکر احسن احسن پر نام بَٹِّی ، مولانا عبدالشکور پونے پَلِّی ، مولانا ذکی احمد جوہر پلیگنڈوی ، حافظ سید اکبر ویلوری ، مقصود احمد اور سینئر طلباء میں مولانا اعظم بھائی ٹمکوری اور مولانا حسین بھائی میل وشارمی وغیرہم قابلِ ذکر رہے ہیں ، ان دوست واحباب کی معیت میں مدرسہ کی زندگی قابلِ رشک رہی ، ہفتہ واری ” ترقئ اردو انجمن ” نامی جلسہ ہوتا تھا جس میں جہاں مولانا اعظم باقوی اپنی ترنم بھری آواز سے نعت پڑھ کر طلباء کو محظوظ کرتے تھے ، وہاں سینیئر طالب علم یحیی باقوی گلبرگوی اور حافظ بأوامر ( جامعہ آبادی ، بھٹکلی ) لطیفے اور چٹکلے سنا کر حاضرین کی خوب شاباشی اور واہ واہی لوٹتے تھے .

    اسی اثناء میری سب سے بڑی ابتلاء نے مجھے حد درجہ پریشان کیا . ہوا یوں کہ چوتھے سال کے امتحانات سر پر کھڑے تھے ، چونکہ اردو طلباء شافعی کم ہی ہوتے ہیں ، ملیباری اور ٹامل شافعی طلباء کے لئے شافعی فقہ کا الگ پیریڈ تھا ، ان کے لئے کوئی پریشانی نہیں تھی ، پریشانی تو میرے لئے تھی ، کیونکہ اردو میں شافعی میں ایک ہی طالب علم تھا ، تین سال تک تو میں حنفی فقہ ہی پڑھتا رہا ، پھر چوتھے سال مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے کوشش کرکے بڑی مشکل سے فقہ شافعی کی کتاب ” عمدة السالك و عدة الناسك ” ایک سینئر ملیباری مولانا زین الدین باقوی سے پڑھنے کی اجازت حاصل کی جو تھوڑی بہت اردو جانتے تھے ، اور میں حنفی فقہ کی بجائے شافعی فقہ پڑھنے لگا ، لیکن سال کے آخر میں میری پڑھائی نصاب کے آس پاس بھی نہیں پہونچ سکی ، ایک تو یہ کہ میرے سینیئر طالب علم استاد اونچی جماعت میں تھے اور ان کی اپنی پڑھائی بھی انہیں کرنی تھی ، اور دوسری بات یہ کہ رات کے وقت ہی وہ مجھے پڑھا سکتے تھے ، اور رات میں ان کا حلقہ کے ساتھ مطالعہ ہوتا تھا . اس دوہری مشکل نے مجھے پریشان کیا ، میں جانتا کہ میری پڑھائی نصاب سے بہت کم ہے اس کم نصاب کو قبول نہیں کیا جائے گا ، پھر میں نے امتحانات شروع ہونے سے پہلے پڑھائی کی ایک ہفتہ کی چھٹی میں حنفی فقہ ” نورالایضاح ” کو بڑی کوشش کے ساتھ پڑھنا شروع کیا اور خود کو اس قابل بنایا کہ حنفی فقہ کا امتحان دے سکوں ، ہائے رے مصیبت ! نہ جانے کس طرح یہ بھنک میرے کلاس والے لڑکوں تک پہونچی ، ان میں سے میرا کوئی خاص دوست نہیں تھا ، مجھ سے جلتے اور حسد کرتے تھے ، کیونکہ لاکھ کوششوں کے باوجود کبھی وہ کلاس میں مجھ سے آگے نہ بڑھ سکے تھے ، روز کسی نہ کسی طرح کی شکایت اساتذہ سے کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے ، ( میری ابتدائی کلاس میں اردو میں بائیس لڑکے تھے جن میں سے کوئی بھی مدرسہ سے فارغ نہیں ہو سکا ، میرے ساتھ دوسرے مدرسہ سے آئے ہوئے لڑکے فارغ ہوئے ، اور فضیلت میں اردو کا کوئی لڑکا نہیں تھا ، ایک سو ایک لڑکوں کے ساتھ اردو کا صرف میں ایک ہی لڑکا تھا ) اور اب تو انھیں ایک سنہرا موقعہ مل رہا تھا جس کو وہ کسی بھی طرح اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے ، اور فورا انھوں نے یہ بات ایک استاد سے کہہ دی اور وہ بھی ٹھیک امتحان کے وقت جن سے ہی آئے دن وہ میری کوئی نہ کوئی شکایت بلکہ الزام لگاتے رہتے تھے ، آپ اس وقت کی میری پریشانی کا اندازہ نہیں لگا سکتے تھے ، استاد ( میں نام نہیں لوں گا ، اور اب تو وہ دو تین سال قبل مغفور بھی ہوگئے ، اللہ تعالیٰ انہیں جنت نصیب فرمائے ) اگر چاہتے تو امتحان لے سکتے تھے ، انھوں نے مجھ سے تفصیل پوچھی ، میں نے صحیح صحیح بتایا ، کہا چلو ناظر ( ناظم ، میں حضرت کا نام نہیں لوں گا ، یہ بھی تقریباً اٹھارہ بیس سال قبل مغفور ہوچکے ہیں ، اللہ عزوجل انہیں جنت نصیب فرمائے ) کے پاس ، اور مجھے ناظر کے پاس لے گئے ، مجھے امتحان میں بیٹھنے نہیں دیا گیا ، جس کا معنی یہ ہوا کہ اگلے سال بھی مجھے اسی کلاس میں ( ناظر کے بیٹوں کے ساتھ بیٹھنا پڑھے گا ، ان کے بیٹوں کا ایک گروپ تھا اور ہمارا ایک گروپ ، اور دونوں گروپوں کے درمیان ہمیشہ ٹھنی رہتی تھی اور یہ بات وقت کے ناظر بھی جانتے تھے ، اور دونوں گروپوں میں کچھ ہوتا تو فیصلہ ہمارے خلاف ہی جاتا ، اسی طرح ایک مرتبہ ہم پر یہ الزام لگا کر کہ ہم ( شاید ظہر کی ) نماز میں غیر حاضر تھے ، حالانکہ ہم حاضر تھے ) بیٹھنا تھا ، اور میں یہ بالکل نہیں چاہتا تھا ، ایک تو میرا سال بیکار جاتا اور دوسرا میرے مخالفوں کے ساتھ کلاس میں میرا جمنا نامحال نہیں تو مشکل ضرور تھا ، سو میں یہ معاملہ اس وقت کے نائب ناظم کے پاس لے گیا ، انھوں نے کسی طرح ناظم کو منوالیا کہ یہ لڑکا چھٹیوں میں اپنا پورا نصاب پڑھ کر آئے گا اور اس کا امتحان ہوگا اور پاس ہونے پر اگلے درجہ میں ترقی دی جائے گی .

    ہمارے ہی گاؤں کے ایک عالم کے پاس فقہ کی تعلیم

    موصوف اپنی سوانح عمری کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بات شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ میرے گاؤں میں میرے حفظ کے استاد کے علاوہ بھی کچھ (ماہ سوا ماہ کے ) عرصہ کے لئے میرے ایک اور استاد بھی ہیں ، یہ کوئی اور نہیں ، بلکہ میرے ہی گاؤں کے ناخدا برادری کے پہلے تین عالموں میں سے ایک عالم ہمارے گاؤں کے امام مولانا حافظ اسحاق صاحب ندوی ڈانگی مدظلہ ہیں ، جن کو استاد کہنے میں مجھے کوئی جھجھک ہے اور نہ کوئی شرم ، اور وہ اتنے اچھے اور فطرتِ سلیمہ والے شخص ہیں کہ غالبًا انھوں نے کسی سے اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا . پہلے تو میں نے ایک امید رکھتے ہوئے مولانا ایوب ندوی مدظلہ سے درخواست کی یہ سوچ کر کہ جامعہ کے بالکل سامنے ہمارا گھر ہے ، اور ہم ” جامعہ اسلامیہ ” کے پڑوسی ہیں کچھ وقت نکال کر مجھے نصاب تک پڑھائیں گے ، اور میں اُس سال جامعہ اسلامیہ کی مسجد میں تراویح بھی سنا رہا تھا ، لیکن انہوں نے عدیم الفرصت ہونے کا عذر پیش کیا ، میرے پاس اب خود کوشش کرکے مطالعہ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا ، لیکن پھر یاد آیا ، ایک شخصیت ہے ، پھر میں نے ان سے اپنا مقصد بیان کیا ، الحمد للہ! انھوں نے مان لیا ، اور اپنی وسعت کے مطابق مجھے پڑھایا . اللہ تعالیٰ میرے استاد مولانائے مذکور کو اس کا پورا پورا بدلہ عطا فرمائے .

    الحاصل میں پوری تیاری کرکے جامعہ باقیات صالحات ویلور گیا اور ناظم سے کہا کہ میں امتحان کی تیاری کر کے آیا ہوں ، ناظم نے صاف انکار کیا ، اور کہا کہ بات گزر گئی ، تم اسی کلاس میں پڑھو ، میں اپنا دکھڑا لے کر نائب ناظم حضرت مولانا کمال الدین صاحب باقوی رحمہ اللہ کے پاس گیا ، اور صورتِ حال سے آگاہ کیا ، وہ ناظم صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ بچہ امتحان کی تیاری کرکے آیا ہے ، اس کا امتحان لیا جائے ، انھوں نے ٹالنے کی بہت کوشش کی ، میں ناظم کے پاس ہی تھا ، نائب ناظر نے ناظر کے پاس کافی تھیکی بحث کی اور کہا کہ بچہ سے ہم نے وعدہ کیا تھا کہ اس کا امتحان لیا جائے گا ، اب تو اس کا امتحان لیا جانا ہی چاہئے ، کافی بحث ومباحثہ کے بعد آخر ناظر صاحب کو منظوری دینا ہی پڑا . اور میرا امتحان مولانا آدم صاحب باقوی مدظلہ کے پاس ہوا اور میں نے کافی اچھے ( غالبا ٨٥ ) نمبرات لئے اور میرا داخلہ اوپر والی جماعت میں ہوا .

    جب بھی یہ یاد تازہ ہوتی ہے تو بے اختیار نائب ناظم کے لئے میرے منہ سے دعائیں نکلتی ہیں ، کہ اگر وہ میرے لیے نہ لڑتے اور مجھے امتحان کے بعد اگلی جماعت میں داخلہ نہ ملتا تو آج میں ایک عالم نہ بنتا . ( پھر اسی سال کے آخر میں ناظر کو ان کے عہدہ سے سبکدوش کردیا گیا اور نائب ناظم صاحب ناظم بنے )

    اللہ تبارک وتعالیٰ میرے تمام اساتذۂ کرام باحیات رہنے والوں اور مغفورلہم کی مغفرت فرمائے ، مغفور لہم کو جنت الفردوس میں اعلی مقامات عطا فرمائے اور باحیات رہنے والوں کو صحت وتندرستی کے ساتھ رکھے ، ان کی پریشانیوں کو دور فرمائے اور ان کی حلال ضروریات کو پورا فرمائے . آمین .

    اللہ سے دعا ہے کہ وہ موصوف کی علمی کاوشوں کو شرف قبولیت بخشے اور ان سے مزید دین کی خدمت لیتا رہے اور ان کے ہاتھوں قوم وملت اور خصو صاً ناخدا برادری کا وہ کام لے جس میں اس کی بھلائی اور خیر ہو اور ان تمام کاموں سے ان کے ہاتھوں کو روک لے جو اس کے لئے نقصان کاباعث ہو ۔ آمین ۔

    کچھ کتاب ہٰذا کے بارے میں

    جیسا کہ ہم واقف ہیں کہ دنیا کی بیشتر آبادی کو متاثر کرنے والی موجوده عالمى وباء کووڈ انیس ، چين كے صرف ايک صوبہ ميں تھى ليكن دھيرے دھيرے اس كا دائره وسيع ہوتا گيا اور تقريبا چار ماہ بعد مارچ سنہ 2020 ء ميں يہ دنيا كے اكثر حصوں ميں پھیلتی چلی گئى ، طبى ماہرين کے مطابق يہ ایک متعدى بیماری ہے جو آپسی اختلاط كى وجہ سے ایک دوسرے ميں بھى اثر كرجاتى ہے ، لہٰذا اسى بنا پر دنیا بھر میں لاک ڈاون كا عمل شروع ہوا ، اور دیکھتے ہی دیکھتے ايک جگہ پر بہت سارے لوگوں كے اجتماعات پر پابندى عائد كردى گئى حتى کہ بہت سارے ممالک ميں مساجد میں جماعت سے نماز کی ادائیگی پر بھی پابندى عائد كردى گئی

    ان حالات سے ایک سلیم الفطرت اور دینی مزاج سے ہم آہنگ شخص کا متأثر و ملول خاطر ہونا ايک فطرى امر ہے ، لہٰذا موصوف كو بھی اس بات كا شدت سے احساس ہوا تو انھوں نے رخصت جماعت پر احاديث كى روشنى ميں لكھنا شروع كيا ، اور يہ سلسلہ دراز ہوتا گيا حتى کہ اس سلسلہ كى پچيس قسطيں معرض وجود ميں آگئيں ۔

    كتاب كيا ہے ؟ اپنے موضوع كے اعتبار سے ايک انوكھى كتاب ہے جس ميں احاديث نبويہ كى روشنى ميں طاعون كے احكامات کے ساتھ ساتھ اسی کی مشابہ وباء کورونا کے شرعی احکام کو بالتفصیل اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے .

    اس کتاب میں مصنف نے طاعون کی تعریف اور اس کی مختلف علامات و اقسام . اسی طرح طاعون میں مرنے والوں کا حکم اور اس ضمن میں شہداء کی اقسام اور کورونا کے مختلف ضمنی امور پر سیر حاصل بحث کی ہے . مثلاً کورونا میں انتقال کرنے والے شخص کو غسل دینے اور کفنانے وغیرہ کے سلسلہ میں .

    اسی طرح طاعون والی جگہوں پر نہ جانے اور وہاں پر موجود لوگوں کے راہ فرار اختیار نہ کرنے کے سلسلہ میں وارد شدہ احادیث کے پس منظر میں کورونا اور طاعون کا ایک طرح سے رحمت ہونا ثابت کیا ہے ۔

    آئیے! خود مصنف كى زبانى اس كتاب كا مختصراً تعارف ملاحظہ فرمائیں :

    ’’ کورونا کووڈ انیس کی لپیٹ میں آیا ہوا سنہ 1441— 1442ھ بموافق 2019— 2020 ء کا یہ سال جہاں ساری دنیا کے لئے معیشت کے اعتبار سے بے حد خراب ثابت ہوا ، وہیں قِيامِ شعائرِ اسلام کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کے حق میں یہ بہت خراب رہا جس میں اجتماعی حیثیت سے مسجدوں میں باجماعت فرائض ، جُمُعَات اور رمضان المبارک میں تراویح کی نمازیں ادا نہ کی جاسکیں ، یہی نہیں! بلکہ عالمی پیمانہ پر اس سال فریضۂ حج سے بھی لوگوں کو محروم ہونا پڑا .

    اکثر ممالک خصوصا خلیج وغیرہ میں ساڑھے آٹھ ماہ سے بھی زیادہ طویل عرصہ کے بعد 19/ربیعِ ثانی 1442ھ ( بہ موافق 4/دسمبر 2020 ء) سے ہی دوبارہ جمعہ منعقد کیا جا سکا ہے ۔ اللہ جلَّ اسمُہ تا قیامت اِ س کو قائم ودائم رکھے ، تمام مسلمانوں کو اس میں استقامت عطا فرمائے اور جلد از جلد اس عالمگیر وبائی مرض کی آزمائش سے تمام لوگوں کو خَلاصی عطا فرمائے .

    کورونا کووڈ انیس( 19 ) نامی وباء نے جب مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال تک پوری دنیا میں اپنے پیر پسارنا شروع کردیئے اور مارچ تک تقریبا دو سو ممالک پر اپنی گرفت مضبوط کرلی تو اس وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے جہاں ان میں سے اکثر ممالک نے مارچ 2020 م میں لاک ڈاؤن کے سہارے ہر قسم کے اجتماعات پر سخت پابندیاں عائد کرنا شروع کردیں تو خلیج کے ممالک بھی لاک ڈاؤن کے نفاذ کو لاگو کرنے سے خود کو الگ نہ رکھ سکے اور سولہ ( 16) مارچ 2020 ء کو لاک ڈاؤن کے نفاذ کا اعلان کر دیا اور ہر قسم کے اجتماعات پر پابندیوں کے ساتھ مسجدیں بھی بند کردی گئیں تو احقر نے ارادہ کیا کہ جماعات اور جُمُعَہ ترک کرنے کی رخصت اور ان کے اعذار پر کچھ خامہ فرسائی کے ساتھ موجودہ دور کی اس بڑی آزمائش کورونا پر بھی سیر حاصل بحث کی جائے جو دن بَدِن بڑھتی ہی جارہی تھی .

    یقینًا کورونا جُمُعَات اور مسجدوں میں جماعات قائم نہ کرنے کا ایک بڑا سبب اور عذر تھا ، جماعات اور جمعہ کے عذر پر تو کافی کچھ معلومات احادیث اور فقہ کی کتابوں کے ذریعہ حاصل ہوئیں ، لیکن ہمیں تو کسی ایسی کتاب کی تلاش تھی جس کو بنیاد بنا کر موجودہ دور کی وباء کو دلائل کے ساتھ اِنھیں( جماعات وجمعات ) قائم نہ کئے جانے کی رخصت پر عذر ثابت ہونے کے لئے ایک پُختہ سبب ثابت ہو ، اور پھر ہمیں وہ کتاب مل ہی گئی جو ” الحافظ المُحَدِّث الْمُفَسِّر الشارح بحر العلوم فی المنقولات والمعقولات خطیب الْاَزْھَرْ العلامہ ابن حجر ” نے طاعون کے سلسلہ میں تقریبًا چھ سو سال قبل لکھی تھی ، میری مراد ہے ” بَذْلُ الْمَاعُوْنِ فِيْ فَضْلِ الطَّاعُوْنِ ” ( طاعون کی فضیلت میں برتنے کی چیزوں [ جیسے سوئی ، دیگچی ، { ہانڈی } کلہاڑی ، طشتری وغیرہ ] کو خرچ کرنا ) .

    پھر جب کورونا کے لئے اس کتاب کو بنیاد بنایا تو آگے کی راہ خود بخود ہموار ہوتی چلی گئی .

    پہلے تو پچیس قسطیں صرف اِس ارادہ سے اقساط کی شکل میں لکھتا چلا گیا کہ ان کو صرف برقی شعاعوں تک ہی محدود رکھا جائے ، پھر جوں جوں علامہ حافظ ابن حجر کی تالیف کے ابواب کی ایک ایک فصل کے ایک ایک صفحہ کی ایک ایک سطر کو پڑھتا گیا تو یہ خیال پروان چڑھتا گیا کہ کیوں نہ اس کو مستقل ایک کتاب کی شکل دے کر شائع کروں کہ جس سے افادہ عام ہوجائے .

    پچیس اقساط میں سے پہلی پانچ قسطیں تو مختصر اور صرف فقہ میں دئے گئے جماعت اور جمعہ کے اعذار پر ہی مشتمل ہیں ، پھر ان کے بعد والی قسطوں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا ، حتی کہ ان میں سے ایک قسط تو لگ بھگ سو صفحات یا ان کو بھی پار کرگئی ہے ، یہ بھی بتاتے چلیں کہ برقی شکل تک ہی محدود رکھنے کا ارادہ کرکے لکھی گئی پچیسوں قسطیں مختصر ہی تھیں ، پھر جب ارادہ انہیں ایک مستقل تصنیف کی شکل دینے کا ہوا تب انہیں پھیلایا گیا ، حتی کہ سیکڑوں صفحات معرضِ وجود میں آئے .

    پانچ اقساط کے بعد طاعون کی تفصیل کے ساتھ جس دن کوئی قسط پوری ہوتی تھی اُس دن اور اُس وقت کی کورونا کی صورتِ حال سے آگاہ کیا جاتا رہا ہے ، پھر جب کتاب توسیعی شکل اختیار کرتی گئی تو وقت اور تاریخ بھی بدلتی گئی اور پہلی تاریخ والی خبر کو اسی حالت میں رکھتے ہوئے پھر کورونا کے تازہ ترین حالات سے باخبر کیا جاتا رہا .

    اللہ جلّت عظمتہ سے دعا گو ہوں کہ باری تعالیٰ احقر کی تالیف کو قبول فرما کر اس کے اور اس کے والدین کے حق میں نجاتِ اُخروی کا ایک ذریعہ بنائے ”.

    امژو زون ٹیم مولانا عبد القادر فیضان باقوی جامعہ آبادی بھٹکلی صاحب کو اس علمی و تحقیقی کتاب کو قلیل عرصہ میں منظر عام پر لانے میں پہل کرنے پر دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہے ، اور پوری ناخدا برادری کی نیابت میں آپ کے اس علمی کارنامہ کو سراہتے ہوئے قابل رشک مبارکباد پیش کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے آپ کی اس دینی و علمی اور عمدہ و نافع خدمات کی قبولیت کے لئے دعا گو ہے .

    مولانا عبدالقادر فیضان بن إسماعيل باقوی

    اظہارخیال کریں

    Please enter your comment!
    Please enter your name here