مساجد و مدارس کی انتظامیہ کمیٹیوں میں علماء کی ضرورت و اہمیت

    0
    923

    رشحات قلم : مولانا محمد زبیر ندوی شیروری

    مساجد اللہ کے پاکیزہ و مقدس گھر ہیں ، ان سے مسلمان کی عقیدت ، محبت اور وابستگی اٹوٹ ہوتی ہے ، جب ایک مومن فرد بشر کے کانوں میں لفظ مسجد سنائی دیتا ہے تو اس کے قلب و ذہن پر تقدیس و تعظیم اور احترام کے حسین جذبات مرتسم ہونے لگتے ہیں جو ایمان کی کسوٹی ، جذبۂ تقویٰ و خدا ترسی اور طہارتِ ظاہری و باطنی کی بین دلیل ہے . مساجد کا احترام بے شمار فضائل کا حامل ہوتا ہے تو مسجد کی خدمت بجالانا کس قدر باعث اجر و ثواب ہوگا ؟ اسی طرح مدارس اسلام کے قلعے ، حصول تعلیم کے کارخانے اور ملت کے علمی سرمایے ہوتے ہیں ، جن کی خدمات پر بلا احصاء اجر لکھا جاتا ہے ، بالخصوص علماء کرام اسلامی تعلیمات کے محافظ اور خادم دیں ہوتے ہیں ، لیکن حالیہ کچھ عرصہ میں مساجد و مدارس کی انتظامیہ کمیٹیوں میں ہونے والی تاناشاہیوں بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کے باعث خادمین مسجد بشمول امام و مؤذن صاحبان ، اسی طرح اساتذہ کے ساتھ ذلت و تحقیر آمیز سلوک میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہوگئے ہیں کہ ضبط تحریر میں لانا بھی حد درجہ مشکل معلوم ہوتا ہے ، کہیں صدرِ کمیٹی کی من مانی ہے تو کہیں اراکین کمیٹی کی ، کہیں مسجد و مدرسہ سے منسلک جائداد کو ذاتی منفعت کے لیے استعمال کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تو کہیں اہلیان کمیٹی مالی معاملات میں خیانت کے مرتکب ہوتے نظر آتے ہیں ، کہیں خادمین مساجد و مدارس کے ساتھ زرخرید غلام جیسا معاملہ کیا جاتا ہے تو کہیں نیک اور سادہ لوح لوگوں کے ساتھ ناانصافی اور ناروا سلوک کیا جاتا ہے .

    مساجد و مدارسں کی انتظامیہ کمیٹیوں میں پائی جانے والی ان بے قاعدگیوں پر مسلمان کا مضطرب و بے چین ہو جانا ایک فطری امر ہے ، چوں کہ مسجد نہ صرف اللہ کا گھر ہے بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا بنیادی دینی مرکز بھی ہے جہاں سے وہ زندگی کے ہر میدان میں تنزل و انحطاط کے بھنور سے نکل کر مراتب عالیہ اور مقامات رفیعہ پر پہنچنے کا سلیقہ سیکھتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہر مسلم حکمران نے اپنے دورِ اقتدار میں مساجد کی تعمیرات پر خاصی توجہ دی ہے جو آج بھی اسلامی فن تعمیر کا شاہکار نمونہ تصور کی جاتی ہیں .

    مساجد کی انتظامیہ کمیٹیوں میں پائی جانے والی خرابیوں کے کہیں نہ کہیں ہم بھی ذمہ دار ہیں ، ہم نے اسلامی تعلیمات کو فراموش کر دیا ہے اور مصلحت پسندی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہرکس و ناکس کو مسجد کے انتظامی امور کے لیے منتخب کردیتے ہیں ، اس سلسلہ میں ہمارا رویہ بھی عموماً وہی ہوتا ہے جو کمزور صلاحیت کے حامل بچوں کے والدین کا ہوتا ہے جو مجبوری کی بنیاد پر انھیں کسی دینی مدرسہ میں داخلہ دلواتے ہیں ، بالکل اسی طرح مسجد و مدرسہ کی انتظامیہ کمیٹیوں کی تشکیل میں بھی ہمارا طرز و رویہ من و عن اسی طرح کا ہوتا ہے ، ہم عموماً ہر کس وناکس اشخاص کو مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے منتخب کرتے ہیں جبکہ مسجد کے امور کی انجام دہی کے لیے زیرک ، معاملہ فہم اور وسیع القلب و وسیع النظر اشخاص کی از حد ضرورت ہوتی ہے جو نہ صرف دور اندیش اور منفعت بخش فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں بلکہ ذی شعور اہل دانش و فطین اور باصلاحیت و تجربہ کار و باحکمت بھی ہوں ، اور قرآن و حدیث سے اپنا تعلق بھی رکھتے ہوں ، اور ساتھ ہی ساتھ صوم وصلاۃ کے پابند اور امانت دار بھی ہوں تاکہ وہ مساجد کو آمدنی کے ذرائع مہیا کر سکیں اور کمیٹی کے دیگر افراد کی صلاحیتوں کو بھی پروان چڑھا سکیں .

    ،مسجد یا مدرسہ کی انتظامیہ کمیٹی کی تشکیل میں کوتاہی و تساہلی سے کام لینا ” لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا ‘ کے مترداف ہے ، غور طلب بات یہ ہے کہ انتظامیہ کمیٹی پر اپنے معاشرہ کی مسئولیات زیادہ ہوتی ہیں ، لیکن ہم اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے ، نتیجتاً ہمارے سارے عزائم اور حوصلے پست ہونے لگتے ہیں کیونکہ غیر تعلیم یافتہ حضرات اپنی مسئولیات کو باریک بینی اور وسعت نظری کے ساتھ سمجھ نہیں پاتے ، لہٰذا انتظامیہ میں تعلیم یافتہ افراد اور تجربہ کار اشخاص کی اشد ضرورت ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ کسی چرب زبان ، عمر رسیدہ ، پنج گانہ نمازی جیسے افراد کو ترجیح دیتے ہیں اور انھیں عہدوں سے بھی نوازتے ہیں ، جس کا خمیازہ ماتحتوں کو بھگتنا پڑتا ہے .

    اس تناظر میں اگر ہم کسی ادنیٰ عقل و فہم رکھنے والے انسان سے بھی سوال کریں کہ مسجد و مدرسہ کی انتظامیہ کمیٹی کے افراد کن صفات کے حامل ہونے چاہئیں تو وہ یہی جواب دیگا کہ وہ حساس اور فعال ہو ، معاملہ کی نزاکت کو خوب اچھی طرح سمجھ سکتا ہو . چوں کہ اس سلسلہ کی ذرا سی کوتاہی بھی سارے معاشرہ کے لیے ضرر رساں ثابت ہوسکتی ہے ، جس کی بین دلیل آج کل کے معاشرہ میں تیزی سے بڑھتا بگاڑ ہے ، ایک وقت تھا کہ منبر رسولﷺ سے تقویٰ و طہارت ، علم و حکمت ، فہم و فراست ، وقار و متانت اور خلوص و للہیت کے حامل علماء کرام خطاب فرمایا کرتے تھے جو نہ صرف عوام الناس بلکہ حکومتِ وقت کی غلطیوں پر اسے بے خوف و خطر آگاہ اور متنبہ کرنے کا ملکہ رکھتے تھے تو دوسری طرف معاشرہ میں پنپنے والی خرابیوں کا بر وقت قرآن و حدیث کی روشنی میں حل پیش کرنے کی کوشش کرتے اور ان کا تدارک کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کرتے تاکہ آج کی خرابی کل معاشرہ کے لیے ناسور نہ بن جائے .

    آج اسی مبارک جگہ سے اکثر ایسے کم علم لوگ خطاب کرنے لگے ہیں جو پڑوسی ریاستوں سے حصول روزگار کے لیے آئے ہوتے ہیں اور وہ اپنی معاشی پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے انتظامیہ کمیٹی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور طوطے کی طرح رٹی رٹائی تقریر سے یہ سمجھتے ہیں کہ فریضہ ادا ہوگیا ، مستند اور با و قار علماء کے تقرر کرنے میں مسجد کی انتظامیہ کمیٹی اس لیے پس و پیش میں رہتی ہے کہ کہیں وہ ان کی من مانی پر گرفت کا سبب نہ بن جائے اور خوبصورت بہانہ یہ بنا دیا جاتا ہے کہ مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کا مالیہ اتنا مستحکم نہیں ہے کہ وہ مستند عالم دین کا تقرر کرسکیں ، یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے ، کوشش یہ ہو کہ ہر محلہ کے متمول حضرات اس کو اپنی ذمہ داری سمجھیں ، مستند عالم دین کا تقرر ہوگا تو مصلیوں کو علمی و اصلاحی تقاریر سننے ملیں گی ، مسائل کو بر وقت جاننے اور اس کے مطابق اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کا موقعہ مل جائے گا جس کا اجر و ثواب کا ہم صحیح معنوں میں اندازہ نہیں لگا سکتے .

    مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کی تشکیل میں ہماری اولین ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ایسے اوصاف کی حامل شخصیات کا انتخاب کریں جس کا ذکر ہمیں اس ذات با برکت کے کلام مقدس میں ملتا ہے جس کی حکمرانی ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی ، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ’’ یقیناً اللہ کے گھروں کو صرف وہی لوگ آباد رکھتے ہیں جو اللہ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتے ہوں ، نماز قائم کرتے ہوں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہوں اور صرف اللہ ہی سے ڈرتے ہوں اُمید ہے کہ ان کا شمار ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوگا ‘‘۔ ( سورۃ التوبۃ/18 )

    کثیر المفاہیم والی اس آیت مبارکہ میں مفسرین کرام نے انتظامیہ کمیٹی کو بھی شامل فرمایا ہے ( تفسیر بیضاوی )

    گویا اس آیت شریفہ میں بیان کیا گیا کہ اراکین کمیٹی کا اللہ تعالی اور روز قیامت پر کامل ایمان ، نماز کی پابندی.، زکوۃ کی ادائیگی اور کردار کا غازی جیسے اوصاف رفیعہ اور خصائل حمیدہ سے متصف ہونا ضروری ہے ، چوں کہ جو شخص ایمان کی دولت سے محروم ہوتا ہے وہ خدائی احکامات کو فراموش کرنے والا ہوتا ہے اور جو شخص اپنے ذاتی نفع و نقصان کا صحیح اندازہ کرنے سے بھی قاصر ہو ، بھلا ایسا شخص مسجد و مدرسہ کی انتظامیہ کمیٹی میں کیا تعمیری رول ادا کرسکے گا ؟

    معاشرہ کے اندر علماء صرف مساجد میں امامت اور مدارس میں درس و تدریس کے لیے مختص نہیں ہوتے بلکہ ان کا دائرہ کار بہت وسیع ہوتا ہے مگر معاشرہ میں کچھ کج فہم اور ناقص سوچ رکھنے والوں نے اسے یہاں تک ہی محدود سمجھ رکھا ہے ، دوسری طرف غلطی ان لوگوں کی بھی ہے جنھوں نے ان سب باتوں کے لیے اپنے اعمال سے عوام کو موقعہ فراہم کیا ہے ، علماء صرف متذکرہ بالا باتوں ہی کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں ، علماء ورثۃ الانبیاء اور اساس العلم ہیں ، اگر ان احباب کو مساجد و مدارس کی انتظامیہ سے دور رکھا جائے گا یا علماء خود دوری اختیار کریں گے نتیجتاً حالات گشیدہ ہوں گے ، اس کے مسئول ایک طرف اہل علم بھی ہوں گے ، پھر یہ کہنا روا نہ ہوگا کہ یہ قرب قیامت کی نشانی ہے ، اسی لیے ایسے افراد کا انتخاب ہوا ہے اور ایسے حالات آرہے ہیں اور یہ *أِذا وســـد الأمـــر أِلی غـیر أھله فانتظر الساعة* کا مصداق ہے ، نہیں….ہرگز نہیں…ایسا سوچنا ہی غلط ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اہل علم اور اہل دانش باصلاحیت ہوتے ہوئے بھی صحیح مسکن و مصرف میں اپنا وقت نہ دے سکے گویا اپنی مسئولیات سے راہ فرار اختیار کی ، بعض اہل علم وہ بھی ہیں جو باصلاحیت ہونے کے باجود اپنی شخصیت کو صحیح مسکن پر مرکوز نہیں کرتے مگر دور ہی سے اپنے کلیدی خطاب اور نیم ملا کے مانند مواعظ بانٹتے پھرتے ہیں ، لہذا اہل علم کے دلوں میں اس بات کا تصور لازمی ہے کہ مسلم سوسائٹی میں ایسی کوئی بھی کمیٹی جس کی داغ بیل علماء کے عدم انتخاب پر کی گئی ہو ایسی کمیٹی کو غیر منظور قرار دیا جائے ، کیوں کہ جس کے بنیادی مقاصد ہی اگر متنفر خیالات سے مربوط ہوں اور علماء سے دوری ہو پھر اسے آپ چار دن کی چاندنی ہی سے تعبیر کر سکتے ہیں ، کیوں کہ اکثر ایسی ایجنسیاں محض نام و نمور پر ہی پروان چڑھتی ہیں جس کی عمارت یا تو کمزور ہوتی ہے یا پھر ایک فلسفہ بن کر رہ جاتی ہے ، لوگوں کا عام رجحان یہی ہے کہ مسجد کی تولیت بڑی سہل ہے ، یعنی ملازمین کو ہر ماہ کی تنخواہ دینا اور سال کے آخر میں حساب کتاب پیش کرنا اور ہر سال یہی ہوتا آرہا ہے جبکہ تاریخ کی ورق گردانی سے ماخوز مغز اور قرآن و احادیث کی روشنی میں اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہے جس سے آج کل کے منتظمین دور دور تک واقفیت نہیں رکھتے ، بس لوگوں کو مظلوم اور محکوم بنانا اور عہدوں کے زور پر اپنا لوہا منوانا جانتے ہیں اور اپنا رعب جمائے پھرتے ہیں ، آخر کہاں تک علماء اپنی پیٹھ پیچھے کی جانے والی تحقیر و تذلیل کو برداشت کریں گے ؟ نماز میں ایک امام کے پیچھے دسیوں قسم کے لوگ کھڑے ہوتے ہیں جو اپنے امام کو اپنے اپنے خیالات کے ترازو میں تولتے ہیں ، ہمہ وقت کسی نہ کسی نقص کے متلاش رہتے ہیں اور بد سلوکی سے پیش آتے ہیں ، ایسے اراکین سے انتظامیہ کو پاک و صاف رکھنا بے حد ضروری ہے ، یاد رکھیں کہ علماء اپنے معاشرہ کے لیے ایک کھلی کتاب ہیں ، جن سے مفارقت ، بُعد اور لاتعلقی و بے اعتنائی کا رویہ اختیار کرنا سراسر بیو قوفی اور کفران نعمت ہے . ہمارا یہ اسوہ ہونا چاہیے کہ ہمارا تعلق علماء سے چولی دامن کا سا ہو ، ان کو اپنے لیے مشیر سمجھیں اور انھیں کی رہنمائی اور روشن دالائل کے ساتھ کام کریں ، اسی میں کامیابی ہے .

    ذرا غور کریں کہ اگر علماء بحیثیت رکن کسی مسجد کی انتظامیہ میں ہوں گے تو ہر کام اپنے اصول و ضوابط سے انجام پائے گا ، مکمل التزام و انصرام کے ساتھ تمام امور پایۂ تکمیل تک پہونچیں گے ، نظم ونسق کے ساتھ کام ہوگا ، معاشرہ اور مصلیوں کے اضافہ کی فکر دامن گیر رہے گی ، نوجوانوں میں کام ہوگا ، انتظامیہ سمیت جماعت کے جملہ ممبران سے وقتا فوقتا ترقی کے سلسلہ میں اہم مشورے ہوتے رہیں گے ، مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوگا ، دعاؤں کے حلقہ ہوں گے ، فقہ کی مجلسیں قائم ہوں گی ، عورتوں کے لیے پردے کے نظم کے ساتھ وعظ و نصیحتیں ہوں گی ، نوجوانوں اور معمر احباب کے لیے قرآن و تجوید کے درس ہوں گے ، دینی فضاء قائم ہوگی ، مختلف ناحیوں سے فکریں کی جائیں گی ، ایک اچھا ماحول اور معاشرہ قائم ہوگا ، جن کے لیے علماء کا کمیٹیوں میں آنا بہت ضروری ہے ، ذمہ داریوں کو لینا ہوگا ، عہدوں کو سنبھالنا ہوگا ، جس کے بغیر چارہ ہی نہیں ہوگا .

    مضمون کو زیادہ طوالت نہیں دیتے ہوئے یہی کہوں گا کہ علماء آگے آئیں اور کمیٹیوں میں حصہ لیں ، اپنے علوم و تجربات سے امت مسلمہ کو استفادہ پہنچائیں ، ان شاء اللہ رفتہ رفتہ حالات سنورنے لگیں گے اور ایک نیا انقلاب برپا ہوگا جس کے نتیجہ میں مدارس و مساجد کا نظم و نسق اپنے صحیح طرز پر قائم ہوگا .

    دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پیغام کو لوگوں کے دلوں میں اتار دے . آمیں .

    نوٹ : اس مضمون کا مقصد حقائق کا انکشاف ، جدید معاشرہ کی تشکیل و ترمیم اور محض خامیوں کا ازالہ ہے .

    اظہارخیال کریں

    Please enter your comment!
    Please enter your name here