امسال سن 2020 ء جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور کے شعبہ عالمیت سے فارغ التحصیل ، جامعہ آباد تینگن گنڈی کے ایک طالب علم کے الوداعی تأثرات

0
1491

امسال سن 2020 ء جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور کے شعبہ عالمیت سے فارغ التحصیل جامعہ آباد تینگن گنڈی کے ایک طالب علم مولوی شعیب اختر بن قاسم بھنڈی کے الوداعی تأثرات .

ألحمد للہ الذی خلق الإنسان و علمہ البیان . أما بعد :

محترم صدر جلسہ ، اساتذہ کرام ، طلباء جامعہ اور میرے رفقاء .

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ .

آج میں آپ حضرات کے سامنے کن جذبات کے ساتھ کھڑا ہوں ، میری پتھرائی آنکھوں میں کون سا درد چھپا ہے ، دل کی موجیں اٹھ اٹھ کر کیا صدائیں دے رہی ہیں ، بتانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے . عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ اپنے ٹوٹے دل کا دکھڑا کیسے سناؤں . بہرحال کہنا ضروری اور غم دل سنانا لازمی ہے . آہ ! رخصت کی گھڑی اور وقت جدائی آپہنچا . کاش ! کچھ اور دن پھولوں کی اس وادی میں بسیرا کر پاتا لیکن نہیں مقدر کا لکھا کون ٹال سکتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گلشن جامعہ میں کل ہی قدم رکھا تھا اور آج رخصت کا لمحہ ہے اور آپ کے سامنے حال بیان کرنا ہے ۔

محترم حضرات ! میری دینی تعلیم کی ابتدا میرے والدین کے جذبات سے منسلک ہے اگرچہ کہ میرا گھرانہ دنیوی تعلیم یافتہ ہے لیکن میرے والد محترم کو علماء سے بڑی محبت تھی یہی وجہ ہے کہ میرے والدین نے میرا داخلہ مدرسہ میں کروا کر مجھے دینی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کی فکر کی . اب کیا کیا بیان کروں جو مناسب ہو اسے سناتا چلوں ، گردش ایام میں جب میں نے اپنی عمر کے چار سال مکمل کر لئے تو میرے والدین نے میرا داخلہ مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن گنڈی بھٹکل میں کروایا ، جہاں میں نے مکتب کی تین سالہ تعلیم حاصل کی ، دوران تعلیم وہاں کے اساتذہ کرام کی محبت و شفقت میرے ساتھ رہی خصوصاً مہتمم مدرسہ مولانا سعود بنگالی ، مولانا اسحاق ڈانگی اور دیگر اساتذہ کرام کی مہربانیاں ناقابل فراموش ہیں . بعدازاں اعلی تعلیم کے لئے والدین نے میرا داخلہ ادارہ ہذا میں کروایا ، برسوں سے میرے والدین نے جو خواب دیکھ رکھا تھا کہ ہمارا لخت جگر مدرسہ ٰہذا میں پڑھ کر ایک دن علماء کے زمرہ میں شامل ہوجائے گا . الحمد للہ آج وہ شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے . ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء .

محترم حضرات ! میں نے جامعہ ٰہذا میں اپنی عمر کے نو سال گزارے دوران تعلیم بہت سے حالات آئے . ان تمام حالات میں سب سے بڑا جاکناں وقت ، میرے والد محترم کا اس دار فانی سے کوچ کر جانا ہے . إنا للہ وإنا إلیہ راجعون ، یقیناً انھیں کی کاوشیں ، محنتیں اور فکر مندی تھی کہ بندہ آج اس مقام پر کھڑا ہے . انھوں نے میری تعلیم کے لئے نہ دن دیکھا نہ رات بلکہ ہر وقت اس کے لئے کوشاں رہے ، دعائیں ، دلاسہ ہمت اور حوصلہ دیا ، لیکن ہائے نصیب ! کامیابی کی گھڑی سے قبل ہی رضائےالہی پر لبیک کہہ دیا . ” کل نفس ذائقۃ الموت “. اللہ سے دعا ہے کہ وہ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے . آمین .
چلتے چلتے میں ان تمام حضرات کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں جو میری تعلیم کے لئے ہر وقت فکرمند رہے ، چاہے وہ میرے والدین ہوں یا میرے بھائی بہن ، اساتذہ کرام ہوں یا میرے رشتہ دار . اسی طرح ناظم و بانی جامعہ ٰہذا ،
مولانا عبیداللہ ابوبکر ندوی کا بھی ممنون و مشکور ہوں ، اخیر میں اپنے مادر علمی کا بھی شکر گذار ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ اسے ہمیشہ آباد رکھے اور دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے . آمین ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here