نماز میں قرآن کریم کو ہاتھ میں تھام کر قرأت کرنے کا شرعی حکم

0
1997
تحریر : غلام مصطفے ظہیر امن پوری

جب آدمی حافظ قرآن نہ ہو تو بوقت ضرورت قرآن کریم ہاتھ میں پکڑ کر قرأت کر سکتا ہے . محدثین کرام رحمھم اللہ اس کو جائز سمجھتے تھے . اسی طرح اگر سامع حافظ نہ ہو تو وہ بھی ایسا کر سکتا ہے جیسا کہ ” ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں روایت ہے کہ ” کانت عائشۃ یؤمّھا عندھا ذکوان من المصحف “. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ذکوانؓ ان کی امامت قرآن مجید سے دیکھ کر کرتے تھے . ( صحیح البخاری ، 96/1 تعلیقا ، مصنف ابن ابی شیبة 337/2 ، کتاب المصاحف لابن داوٗد/797 ، السنن الکبرٰی للبیھقی ، 253/2 ، وسندہٗ صحیحٌ )

حافظ نووی رحمہ اللہ ( خلاصة الاحکام ،550/1) نے اس کی سند کو ‘‘ صحیح ’’ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ( تغلیق التعلیق ، 291/2 ) نے اس روایت کو ‘‘ صحیح ’’ قرار دیا ہے .

امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” کان محمّد لا یری بأسا أن یؤمّ الرجل القوم ، یقرأ فی المصٖحف “۔

امام محمد بن سرین تابعیؒ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ آدمی قوم کو امامت کروائے اور قرأت ، قرآن مجید سے دیکھ کر کرے ’’. ( مصنف ابن ابی شیبة ، 337/2 ، وسندہٗ صحیحٌ )

امام شعبہ رحمہ اللہ امام حکم بن عتیبہ تابعی رحمہ اللہ سے اس امام کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو رمضان المبارک میں قرآن مجید کو ہاتھ میں پکڑ کر قرأت کرتا ہے . آپؒ اس میں رخصت دیتے تھے “. ( مصنف ابن ابی شیبة ، 337/2 ، وسندۃٗ صحیحٌ )

امام حسن بصری تابعی رحمہ اللہ اور امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نماز میں قرآن مجید پکڑ کر قرأت کرنے میں کوئی حرج نہیں”. ( مصنف ابن ابی شیبة ، 337/2 ، وسندہٗ صحیحٌ )

امام عطاء بن ابی رباح تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حالت نماز میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرأت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے . ( مصنف ابن ابی شیبة 337/2 ، وسندہٗ صحیحٌ )

امام یحیٰی بن سعید الأنصار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” لا أری بالقراءۃ من المصحف فی رمضان بأسا “. میں رمضان المبارک میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرأت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا ہوں “. ( کتاب المصاحف لابن ابی داؤد/ 805 ، وسندہٗ صحیحٌ )

محمد بن عبداللہ بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام زہری رحمہ اللہ سے قرآن مجید سے قرأت کر کے امامت کرانے کے بارے میں پوچھا تو آپؒ نے فرمایا! ” لم یزل الناس منذ کان الإسلام ، یفعلون ذلك “. اسلام کے شروع سے لے کر ہر دور میں مسلمان ایسا کرتے آئے ہیں . ( کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد/806 ، وسندہٗ حسنٌ )

امام مالکؒ سے ایسے انسان کے بارے میں سوال ہوا ، جو رمضان المبارک میں قرآن مجید ہاتھ میں پکڑ کر امامت کراتا ہے ، آپؒ نے فرمایا! ” لابأس بذلك ، وإذا ضطرّوا إلی ذلك “. مجبوری ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے . ( کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد/ 808 ، وسندہٗ صحیحٌ )

امام ایوب سختیانیؒ فرماتے ہیں! ” کان ابن سیرین یصلّی ، والمصحف إلی جنبه ، فإذا تردّد نظر فیه “.
امام محمد سیرین رحمہ اللہ نماز پڑھتے تو قرآن مجید ان کے پہلو میں پڑا ہوتا ، جب بھولتے تو اس سے دیکھ لیتے “. ( مصنف عبد الرزاق ، 420/2 ، ح/3931 ، وسندہٗ صحیحٌ )

امام ثابت البنانیؒ بیان کرتے ہیں کہ ” کان أنس یصلّی ، وغلامه یمسك المصحف خلفه ، فإذا تعایا فی آیة فتح علیه “. سیدنا انس بن مالک رحمہ اللہ نماز پڑھتے تھے تو ان کا غلام ان کے پیچھے قرآن مجید پکڑ کر کھڑا ہو جاتا تھا ، جب آپ کسی آیت پر رک جاتے تو وہ لقمہ دے دیتا تھا “. ( مصنف ابی ابن شیبه ، 337/2 ، السنن الکبری للبیھقی ، 312/3 ، وسندہٗ صحیحٌ )

ثابت ہوا کہ قرآن مجید ہاتھ میں پکڑ کر قرأت کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی . اس کے خلاف سلف سے کچھ ثابت نہیں . فاسد کہنے والوں کا قول خود فاسد اور کاسد ہے .

سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم ، فقیہ العصر ، شیخ عبد العزیز ابن باز رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری ( 185/2 ) کی تحقیق میں اس کو بوقت ضرورت جائز قرار دیا ہے .

جو لوگ کہتے ہیں کہ ہاتھ میں قرآن کریم پکڑ کر نماز میں قرأت کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ، وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ” سیدنا ابن عباس رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے ہمیں قرآن کریم ہاتھ میں پکڑ کر امامت کرانے سے منع فرمایا “. ( کتاب المصاحف/772 )

لیکن اس کی سند سخت ترین ‘‘ ضعیف ’’ ہے ، کیونکہ اس کی سند میں نہشل بن سعید راوی ‘‘ متروک ’’ اور ‘‘ کذاب ’’ ہے .
( تقریب التھذیب/ 7197 ، میزان الاعتدال/275/4 )

اسی طرح اس کے راوی ضحاک بن مزاحم کا سیدنا ابن عباسؓ سے سماع نہیں ہے
( تفسیر ابن کثیر ، 236/5 ، التلخیص الحبیر لابن حجر ، 21/1 ، العجاب فی بیان الاسباب لابن حجر ، ص/104 )

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here