اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ پر ایک سبق آموز مکالمہ

0
3199

از : ڈاکٹر عقیل انڈیا

حضرت! ذرا نماز سے متعلق کچھ باتیں پوچھنی ہیں . 

پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو ؟

یہ بتائیں کہ نماز کی نیت زبان سے کرنی ہے کہ دل میں۔

میاں! نیت زبان سے کرو یا دل میں کرو ، ہر صورت میں خالص ہونی چاہئے .

جواب کچھ عجیب تھا لیکن اگلا سوال ، اچھا ہاتھ کانوں تک اٹھانے ہیں یا کاندھے تک ؟

میاں کان اور کاندھے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ حقیقت میں تو ہاتھ نفس کی پوجا سے اٹھانے ہیں .

اچھا ہاتھ کہاں باندھنے ہیں، سینے پر کہ ناف کے نیچے ؟

ارے صاحبزادے، ہاتھ ادب سے باندھنے ہیں ، جہاں ادب محسوس ہو وہیں رکھ لو ۔

سورہ فاتحہ امام کے پیچھے بھی پڑھنی ہے یا چپ رہنا ہے ؟

بھائی ، جب تمہارا نمائندہ خدا سے سب کے لیے بآواز بلند بول رہا ہو تو تمہیں بولنے کی کیا ضرورت ؟ اور جب وہ خاموش ہو تو تمہارے چپ رہنے کا کیا مقصد ؟

اچھا! سمجھ گیا لیکن یہ آمین زور سے بولنی ہے کہ آہستہ ؟

میاں! آمین کا مطلب ہے” قبول فرما”۔ تو کبھی یہ آہ زور سے نکلتی ہے تو کبھی آہستہ ۔  دعا کی قبولیت آواز کی بلندی نہیں دل کی تڑپ کا تقاضا کرتی ہے۔

سنا ہے رکوع میں کمر اتنی سیدھی ہوئی ہو کہ پانی کا پیالہ بھی پشت پر رکھ دیا جائے تو اس کا لیول برقرار رہے؟

میاں! جب غلام جھکتا ہے تو کیا بادشاہ پیالہ رکھ کر کمر کا تناو چیک کرتا ہے؟ وہ تو تمہارے بے اختیار جھکنے کو دیکھتا ہے اور بس۔

کیا رکوع سے اٹھ کر دوبارہ رفع یدین کرنا ضروری ہے؟

جناب من! اصل کام تو تکبیر یعنی خدا کی بڑائی بیان کرنا ہے، اب یہ بڑائی ہاتھ اٹھاکربیان کرلو یا بنا ہاتھ اٹھائے۔

حضور ، کیا سجدہ میں اتنا اونچا ہونا لازمی ہے کہ ایک چھوٹا بکری کا بچہ نیچے سے نکل جائے ؟

میرے دوست، سجدہ تو عاجزی و پستی کی انتہائی علامت ہے۔ بادشاہوں کے بادشاہ کے حضور ناک رگڑتے وقت کس کو ہوش ہوتا ہے کہ اونچائی اور لمبائی کتنی ہے ؟

حضرت آپ تو ساری باتوں میں بہت وسعت اور آپشنز پیدا کررہے ہیں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ “صلو کما رائتمونی اصلی” یعنی نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے

ارے بھائی! ہم نے تو نبی کریم کو نماز میں روتے ہوئے دیکھا، گڑگڑاتے دیکھا، ادب و احترام کا پیکر بنے قیام میں دیکھا، قرآن کو سمجھ کر پڑھتے ہوئے دیکھا، اپنے رب کے آگے بے تابی سے جھکتے دیکھا، تڑپتے ہوئے سجدہ کرتے دیکھا، قومہ و قعدہ میں بھی دعائیں مانگتے ہوئے دیکھا، تسبیحات بدل بدل کر پڑھتے ہوئے دیکھا، اپنے رب کو خوف و امید سے پکارتے ہوئے دیکھا۔ہم نے یہی دیکھا اور یہی سمجھا کہ نماز کا اصل مغز یہی سب کچھ ہے ۔ یہی وہ نماز ہے جس کے لیے نبی نے حکم دیا کہ نماز اس طرح  پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو ۔

بات اس کی سمجھ آچکی تھی کہ آج تک وہ نماز پڑھتا تو رہا ، ادا نہ کرپایا۔ موذن حی علی الصلوٰۃ کی صدائیں لگارہا تھا اور وہ اس حکم پر عمل کرنے کے لیے بے تاب تھا ” صلو کما رائیتمونی اصلی”—“نماز اس طرح  پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔

نوٹ  : خلاصۂ کلام یہ کہ نماز میں نماز کے ارکان کی روح پر توجہ دی جائے نہ کہ ارکان کی ظاہری شکل وصورت پر ۔ البتہ مشہور ومعروف سنن کی ادائیگی کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہوگا تاکہ ہماری نماز کا ظاہر وباطن شریعتِ مطہرہ کی بنیادی چیزوں سے ہٹنے نہ پائے۔

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here