استقبال رمضان اور ہماری ذمہ داری

0
1229

رشحات قلم : محمد زبیر ندوی شیروری

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ( سورۃ البقرۃ/183 )

یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ ہر ملک ، قوم ، معاشرہ ، گھر اور ہر فرد بشر اپنے گھر میں آنے والے مہمان خاص کے استقبال کے لئے حتی الوسع و حتی المقدور تیاری کرتا ہے اور اپنے مہمان کے مقام و مرتبہ اور شخصیت کا لحاظ کرتے ہوئے اس کی حیثیت کے بقدر پُرزور استقبال کرتا ہے . اس کے رہن سہن ، شرب و طعام حتی کہ صبح بیدار ہونے سے لیکر رات سونے تک اسے جن جن اشیاء کی ضرورت ہوا کرتی ہے ان کا خیال رکھتا یے . کوشش یہ ہوتی ہے کہ مہمان کو کسی بھی طرح کی کوئی اذیت و زک نہ پہنچے اور وہ خوش وخرم چلا جائے اور میزبان کو بھی دلی تسکین حاصل ہو سکے . معاشرہ میں ان چیزوں کا رواج عام طور پر پایا جاتا ہے .

یہ بات مُسَلَّم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پورے سال میں بارہ مہینے مقرر کئے ہیں جن میں اپنی حکمت و قدرت عالیہ سے الگ الگ موسم رکھے ہیں ، کبھی سردی تو کبھی گرمی ، الغرض یوں کہئے کہ پورے سال میں کسی نہ کسی چیز کا ایک موسم ضرور ہے ، خواہ وہ پھل پھول کا ہو ؟ یا کھیت کھلیان کا ہو ؟ بیع و شراء کا ہو ؟ یا لھو و لعب کا ہو ، ہر ایک شئ کے لئے کوئی نہ کوئی سیزن ضرور ہے . جس میں اپنے اپنے موسم کے تحت مال کی فراوانی ، پھل پھول اور کھیت کھلیان میں زمین کی پیداوار کی کثرت اور دیگر اشیاء وغیرہ میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان اپنے مطلوب و مقصود کو بر وقت پالیتا ہے . اور اس کی نعمتوں سے مستفید ہوتا رہتا ہے . بالکل اسی طرح عبادت کا بھی اک موسم ہے جو رمضان المبارک کے نام سے موسوم ہے . در حقیقت مہینے تو سب کے سب عبادت اور اللہ ہی کے ہیں مگر فضیلت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں جن میں رمضان کو عبادت کے لحاظ سے تمام مہینوں پر خصوصی فضیلت و فوقیت اور مقام و مرتبہ حاصل ہے ، جس کا اندازہ اس سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اس ماہ میں قرآن کا نزول ہوا . اس ماہ کو عبادت کے سیزن سے اسی لئے تشبیہ دی جاتی ہے کہ اس ماہ میں عبادت ، تلاوت ، صدقہ و خیرات اور حسنات دیگر مہینوں کے مقابلہ زیادہ عمل میں آتے ہیں اور ان کے اجر میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور اس کی قیمتی ساعتوں سے لطف اندوز ہونے کا موقعہ بھی ملتا ہے .

اس ماہ میں بندہ کے لیل و نھار کا اکثر حصہ عبادت میں شمار کیا جاتا ہے یعنی بندہ دن بھر روزہ کی حالت میں عبادت ہی میں ہوتا ہے . پھر تراویح اور دیگر نیک اعمال میں مصروف رہتا ہے . اس طرح وہ اپنے لیل و نھار کو عبادت اور نیکی کے کاموں ، صوم و صلوۃ ، تلاوت ، صدقہ و خیرات ذکر و اذکار اور دعا وغیرہ میں گذارتا ہے جس سے اس کو اپنے رب کا تقرب حاصل ہوتا ہے ہے اور قلب و روح کو تسکین ملتی ہے اور عبادت میں لذت محسوس ہونے لگتی ہے

اس ماہ میں عبادات کا شوق غیر رمضان کے مقابلہ زیادہ ہوتا ہے اور گناہوں سے بچنے کے اسباب بھی پیدا ہوتے ہیں جن سے جسمانی و روحانی امراض کا سد باب ہوتا ہے ، گناہوں اور بری عادتوں سے نفرت پیدا ہونے لگتی ہے اور دل پاک و صاف ہونے لگتا ہے ، ایمان اور اعمال میں اضافہ ہوتا ہے .

رمضان کا مہینہ بندہ کے جملہ انسانی اعضاء اور روح کے لئے ایک تمرين ہے ، کیونکہ بندہ روزہ کی حالت میں آنکھوں سے گندی اشیاء نہیں دیکھ سکتا . اپنے ہاتھوں اور پیروں کو غلط کاموں میں استعمال نہیں کر سکتا اور نہ ہی غلط کاموں پر تعاون کر سکتا ہے . کیونکہ وہ حکم خداوندی ” و تعاونوا علی البر والتقوى ، ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان” کا پابند ہوتا ہے اسی طرح وہ اپنے کانوں سے غلط چیزیں نہیں سن سکتا اور نہ ہی اپنی زبان کا استعمال غلط جگہوں پر کر سکتا ہے لہذا وہ ” مَنْ صَمَتَ نَجَا “ کا مصداق بن جاتا ہے کیونکہ کہ وہ جانتا ہے ک روزہ محض بھوکا رہنے کا نام نہیں بلکہ اپنے آپ کو خواہشات نفس سے بچانے اور عبادت کے ساتھ جملہ اعضاء کو گناہوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنے نفس پر کنٹرول کرنے کی ایک تمرین کا نام ہے . لہذا روزہ عادتاً ، مصلحتاً ، رسماً اور رواجاً نہ رکھیں بلکہ اس کے مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے عبادت سمجھ کر رکھیں .

یہ بات اَظْھَرْ مِنَ الشَّمْس وَلاَ رَیْب فیہ ہے کہ بندہ بھرے پیٹ میں جتنے گناہ کرتا ہے اتنے خالی پیٹ میں نہیں کرتا اور اکثر گناہوں کا احساس اور اس کی باتیں بھرے پیٹ ہی میں ہوا کرتی ہیں جبکہ خالی پیٹ میں بھوک اور پیاس کا احساس زیادہ ہوتا ہے . عموماً بندہ روزہ کی حالت میں گناہوں پر زیادہ قابو پاتا ہے اور انھیں بآسانی ترک کرتا ہے ، نیز رمضان میں نیکیوں کا داعیہ اور عبادت کا ماحول زیادہ رہتا ہے .

روزہ ، روزہ دار کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ صرف ایک ماہ تک روزہ رکھ کر تھک ہار گیا ہے تو غرباء ، مساکین و فقراء کا کیا عالم ہوگا ؟؟ ان کی بھوک و پیاس کیسے بجھتی ہوگی ؟ انھیں چین و آرام کب ملتا ہوگا اور نوع بنوع کے کھانے پورے سال کیسے میسر آتے ہوں گے ؟ ناشتہ مل بھی جائے تو ظہرانہ اور عشائیہ کا کیا حال ہوتا ہوگا . یہ وہی احساس ہے جس سے بندہ اپنے رب کی طرف مائل ہوتا ہے اور سجدہ ریز ہو کر اپنی معافی تلافی کر کے اس کا تقرب حاصل کر لیتا ہے اور اپنی کم مائیگی کا احساس کرکے نادم ہوتا ہے اور یہی ندامت اس کو توبہ تک کھینچ لاتی ہے جس سے دل و دماغ کی تطہیر ہوتی ہے . پھر ایک نئے طرز کے جذبہ عبودیت کا احساس جاگ اٹھتا ہے پھر اس سے صالح افکار رونما ہوتے ہیں اور ایک نئی اسلامی زندگی کے آغاز کا داعیہ پیدا ہوتا ہے جو کہ روزہ کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے .

مختصراً یہ کہ روزہ اپنے بے شمار اغراض و مقاصد کے ساتھ ہمارے گھر ایک مہمان کی حیثیت سے آیا ہے جس کا پاس و لحاظ کرنا ہماری ایک اہم دینی ذمہ داری ہے . گویا کہ ہم میں سے ہر ایک اس ماہ مبارک کا میزبان ہے اور اس کی میزبانی یہ ہے کہ ہم اس کی قیمتی ساعتوں کو بےکار کاموں اور فضولیات میں ضائع نہ ہونے دیں بلکہ عبادت ، تلاوت ، ذکر و اذکار ، صدقہ و خیرات اور دیگر نیک کاموں میں صرف کریں . لایعنی باتوں سے پرہیز کریں ، اسے اپنے لئے اخروی زندگی میں کامیابی کے حصول کا ذریعہ سمجھیں اور اپنے مہمان کو اپنے سے خوش و خرم کر کے ہی بھیجیں کیونکہ اگلا رمضان ملنے اور نہ ملنے کی کوئی گارنٹی نہیں اور اگر مل بھی جائے تو صحت کی . لہذا موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں .

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس موقعہ سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور معزز مہمان خاص کا بھر پور خیال رکھتے ہوئے روزہ کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے . آمین .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here