انسان کی فطرت سلیمہ سے دوری کیوں اور کیسے ؟؟

    0
    561

    از : افنان بن اشرف علی اسپو ، ساکن فردوس نگر ، ہیبلے ، بھٹکل

    یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان اپنی فطرت سلیمہ پر ہی پیدا ہوتا ہے لیکن بسا اوقات کچھ خارجی اثرات اس کو اس کی فطرت سلیمہ سے ہٹانے کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث اس پر دال ہے ” وَعَنْ اَبِیْ ھرَیرَۃَ رضیَ الله عنه قَالَ! قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه ص لی الله علیه وسلم ، مَا مِنْ مَّوْلُوْدٍ اِلَّا يُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِه اَوْ يُنَصِّرَانِه اَوْ يُمَجِّسَانِه کَمَا تُنْتَجُ الْبَھِيمَةُ بَھِيمَةً جَمْعَآءَ ھَلْ تُحِسُّوْنَ فِيھَا مِنْ جَدْعَآءَ ثُمَّ يقُوْلُ (فِطْرَۃَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْھَا لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ذَلِك الدِّيْنُ الْقَيِّمُ “۔ ( سورۃ الروم/30 ) . ( صحیح البخاری والمسلم ) .

    حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ ) سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا! جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے اس کو فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے ( یعنی امر حق کو قبول کرنے کی اس میں صلاحیت ہوتی ہے ) پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح ایک جانور صحیح سالم جانور کو جنم دیتا ہے ، کیا تم اس میں کوئی کمی پاتے ہو ؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” یہ وہ فطرت ہے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ کی خلقت میں تغیر و تبدل نہ کرو یہی درست دین ہے . ( صحیح البخاری والمسلم )

    اس حدیث سے یہ پتا چلا کہ جو بھی انسان پیدا ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اس قابل بنا کر پیدا کرتا ہے کہ وہ اسلام کے تمام احکامات پر عمل کر سکے ۔ لیکن اس کے ماں باپ اپنے اپنے عقائد کے مطابق اسے یا تو نصرانی ، یہودی، اور مجوسی بنا دیتے ہیں یا اس کو اس کے اطراف واکناف کی سوسائٹی اور ماحول اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے ، جس طرح ایک جانور صحیح سالم جانور کو جنم دیتا ہے ، اس وقت اس کا کوئی عضو کٹا نہیں ہوتا یہ الگ بات ہے بعد میں کوئی اس کا کان ، ہاتھ وغیرہ کاٹ دے ۔

    یہاں پر ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ مسلمان ، یہودی ، نصرانی وغیرہ میں فرق عقیدہ سے ہوتا ہے ۔ عقیدہ کے معنی دل میں جمائے ہوئے یقین وایمان کے آتے ہیں . اگر کسی کا عقیدہ ” لا اله إلا الله محمد رسول الله ” ہے تو وہ مسلمان ہے اگر اس کے علاوہ یہودیوں نصرانیوں یا انکے علاوہ کا ہے تو وہ اسی مذہب کا ہے ۔ عقائد کئی طرح کے ہوتے ہیں لیکن سب سے سچا اور حقیقی عقیدہ ” لا إله إلا الله اور محمد رسول الله ” کا ہے اور الله کے نزدیک یہی قابلِ قبول ہے جیسا کہ فرمان باری ہے ” إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلْإِسْلَامُ ” اس کے علاوہ انسان اپنی زندگی مختلف عقائد کے دائرہ میں رہ کر گذارتا ہے کوئی یہ سمجھ کر کہ مجھے جوان ہوکر کمانا ہے اور بڑھاپہ تک موج مستی کی زندگی گذارنی ہے اور موت سے اپنی حفاظت کرنی ہے ، تو کوئی نفسانی خواہشات کو اپنا معبود بنا کر جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ” أفرأیت من اتخذ الھه ھواہ ” کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیا . وغیرہ وغیرہ ۔

    اے ابن آدم! اس فرمان نبوی ﷺ سے یہ معلوم ہوا کہ الله نے تجھے تو فطرت پر پیدا کیا اور تجھے اسلام کے تمام احکامات پر عمل کرنے کا پابند بنایا ہے لیکن تو نے اپنا یہ عقیدہ بنایا لیا کہ میں گنہگار ہوں لہذا توبہ کی مقبولیت کا موقعہ میرے ہاتھ سے نکل گیا ہے ، میرے پاس وسائل کی کمی اور جسمانی تکالیف ہیں لہذا میں نماز پڑھ نہیں سکتا ، شدید گرمی ہے تو روزہ نہیں رکھ سکتا، لیکن درحقیقت تو نے اپنے آپ کو خود بے ہمت بنا دیا جس کی وجہ سے جس بلند مقصد کے خاطر تیری تخلیق کی گئی تھی اس کا پورا کرنا تجھ پر دشوار ہو گیا ۔ کیا تیری نظروں سے الله کا یہ فرمان ” وَاَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ ” نہیں گذرا کہ اللّٰہ اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے ۔ تجھے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس نے تیرے اندر وہ قابلیت رکھی ہے کہ تو بیماری کی حالت میں نماز پڑھ سکے ، شدید گرمی میں روزہ رکھ سکے ۔ لیکن تو نے نفسانی خواہشات کی تکمیل کو ہی اپنا نصب العین بنا لیا ہے تو اس میں تیرے پروردگار کا کیا قصور ہے اپنی ہی کم ظرفی ہے .

    ذرا سوچ’! الله نے تجھے اسلام کا پابند بنایا ہے . اگر جہاد اور الله کی راہ میں اپنی جان دینے کا موقعہ آئے تو یہ بھی تجھ پر فرض ہوگا . سوچ کیا جان دینا کوئی آسان بات ہے ؟ پھر بھی یہ تجھ پر فرض کیا گیا لہٰذا تجھے جہاد کرنا ہی پڑے گا کیونکہ یہ الله کا حکم ہے . یہ حکم تجھے کیوں دیا گیا کیونکہ تیرے اندر اس نے جہاد کرنے اور جان دینے کی قابلیت رکھی ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے ” لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا “. اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا . اسی طرح اسلام کے تمام احکامات پر عمل کرنے کی قابلیت الله نے تجھ میں رکھی ہے .

    انسان ایک ذرخیز زمین کی طرح ہے جس میں جو بویا جائے گا وہی آگے گا اگر گیہوں بوئیں گے تو گیہوں ، جو بوئیں گے تو جو ، یا ان کے علاوہ کوئی اور چیز بوئیں گے تو وہی اگے گی ۔ اسی طرح انسان جس قابلیت کی محنت کرے گا وہ قابلیت اسے حاصل ہوگی جیسا کہ فرمان باری ہے ” وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى “. انسان کے لئے وہی ہوگا جس کی اس نے کوشش کی .

    پھر تو کیوں مایوس ہوکر بیٹھ گیا ہے ؟ اٹھ! الله سے حسنِ ظن رکھ اور اعمال صالحہ بجا لا کر اپنے مقصد کو پالے ، کیونکہ ہم الله سے جیسا گمان رکھیں گے تو ویسے ہی اس کے فیصلے ہوں گے ، حدیث قدسی ہے کہ ” اَنا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی “. میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں . اگر تو یہ گمان رکھے کہ میں زندگی بدلنے کی کوشش کروں گا تو الله تیری زندگی بدل دیگا اور اس کا فیصلہ بھی ایسا ہی ہوگا .

    اظہارخیال کریں

    Please enter your comment!
    Please enter your name here