ماہِ رمضان اور تلاوتِ قرآن

0
1127

از : حافظ ثاقب حسین ندوی

جس طرح ماہ رمضان نیکیوں کا موسمِ بہار ، گم گشتہ راہ کے لئے باعثِ قرار اور مرجھائے ہوئے چہروں کے لئے باعثِ برگ و بار ہے ، اسی طرح تلاوتِ قرآن کی تلاوت کا سنہرا موقعہ ، باعثِ سفارش اور شیطان مردود کے لئے گراں بار و پاپندیِ سلاسل ہے ، یہ بندہ کے حق میں دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کا سامان اور انسانی روح کی آبیاری اور اس کے وجود میں سوزدروں اور شعلۂ محبت بڑھانے کا بہترین آلۂ کار ہے .

رمضان اور قرآن کا آپس میں ایک ایسا عمیق و گہرا تعلق ہے جو اپنے اندر بہت ساری مشترکہ خصوصیات سموئے ہوئے ہے ، جنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا .

امام رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ روزہ اور نزول قرآن کے درمیان گہرا تعلق ہے ، جب یہ مہینہ نزولِ قرآن کے ساتھ خاص کیا گیا تو ضروری تھا کہ یہ مہینہ روزوں کے ساتھ بھی خاص ہو . ( تفسیر کبیر ، 98/3 )

ذیل میں انہی چند مشترکہ خصوصیات کو بیان کیا جارہا ہے .

رمضان میں قرآن کا نزول ، اللہ کا فرمان ہے ” شھر رمضان الذی انزل فیه القرآن ھدی للناس و بینت من الھدی و الفرقان ( البقرۃ/ 185 ) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید اتارا گیا جو انسانوں کے لئے راہ ہدایت ہے ، جس میں راستہ بتانے کی کھلی کھلی نشانیاں ہیں اور جو حق وباطل کے درمیان تمیز کرنے والا ہے”. اور ایک جگہ فرمایا! ” انا أنزلناہ فی لیلة القدر ” ( القدر/1 ) بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا .

تقوی ( خوف خدا ) کا پیدا ہونا ، جیسا کہ روزہ کا مقصد اللہ تبارک و تعالیٰ نے مردہ قلوب میں تقوی یعنی خوفِ خدا پیدا کرنا فرمایا ہے ، ارشاد خداوندی ہے ” لعلکم تتقون ” تاکہ تم متقی بن جاؤ ، اسی طرح ساری انسانیت کی ہدایت کے لئے اسی ماہ مبارک کی ایک شب میں قرآن مجید کو نازل فرمانا ، اس کا بھی بنیادی مقصد تقوی ہی ہے ” ذلك الکتاب لا ریب فیه ھدی للمتقين ” یہ وہ کتاب ہے جس میں شک نہیں ، یہ ہدایت ہے متقیوں کے لئے “.

قیامت کے دن روزہ اور قرآن کا سفارش کرنا جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے حق میں سفارش کریں گے ، روزہ عرض کرے گا کہ اے میرے رب میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور خواہشات سے روکے رکھا اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما اور قرآن عرض کرے گا کے اللہ میں نے رات کو اسے سونے سے روکے رکھا اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما ، تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کی شفاعت قبول فرمائے گا ( مسند احمد ، 2/ 176 )

ہمیں اس بات کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ جس ذات اقدس پر یہ قرآن نازل ہوا ، وہ خود ماہ رمضان میں روزوں کا اہتمام تو فرماتے ہی تھے ، ساتھ ہی قرآن کا دور بھی فرماتے تھے ، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں! ” کان یلقاہ فی کل لیلة من رمضان فیدارسه القرآن ( بخاری/6 ) یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تشریف لاتے اور قرآن کا دور کراتے “. صحیحین کی متفق علیہ حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہر رمضان المبارک میں رات کے وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام قرآن پاک کا دور کرنے کے لئے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرہ مبارکہ میں تشریف لاتے ، جہاں باری باری ان دونوں ہستیوں میں سے ایک ہستی کلام پاک کی تلاوت کرتی تو دوسری سماعت فرماتی ، یہ معمول ہر رمضان میں جاری رہا ، یہاں تک کہ وصال مبارک سے پہلے آخری رمضان آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سابقہ معمول کے برعکس دو مرتبہ قرآن پاک کا دور جبرائیل علیہ السلام کی معیت میں فرمایا ، حفاظ و قراء کرام کی کتنی خوش قسمتی ہے کہ وہ دوران تراویح ہر رمضان میں قرآت اور سماعت کا فریضہ ادا کر کے بیک وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرائیل علیہ السلام کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہیں .

جہاں رمضان اور روزہ کی فضیلت ہے ، وہیں تلاوت قرآن کی بھی بہت بڑی فضیلت ہے ، حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” جس شخص نے اللہ کی کتاب کا ایک حرف پڑھا ، اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے ، میں یہ نہیں کہتا کہ الٓمّٓ ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے ( ترمذی/291 ) اسی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین رمضان میں قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت فرمایا کرتے تھے ، چنانچہ حضرت موسی علیہ السلا م کو جب اللہ تعالیٰ نے کتاب دینے کا ارادہ کیا تو انھیں ایک ماہ تک روزہ رکھنے کا حکم دیا ، پھر اس کے بعد دس دن کا اضافہ کیا ، اور پھر انھیں کلام الہٰی عطا فرمایا . اسی لئے آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان المبارک میں دیگر مہینوں کے بمقابلہ طویل قرأت فرماتے ، ایک رات رمضان میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نیت باندھ لی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے سورہ بقرہ پڑھی ، پھر سورہٴ نساء ، پھر سورہٴ آل عمران ، کسی بھی آیت تخویف پر سے گذرتے تو رکتے ، دو ہی رکعت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ پڑھا تھا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے ، نماز کے لئے اذان دے دی ، ( مسند احمد ) امام نسائی نے نقل کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے چار رکعات نماز ادا کی تھی ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے اسی اہتمام کو دیکھ کر بعض اسلاف رمضان کی تین راتوں میں ختم فرماتے ، بعض لوگ ہر ہفتہ ایک قرآن اور بعض افراد ہر دس دن میں ایک قرآن ختم کرنے کا اہتمام کرتے ۔ ( لطائف المعارف ، 66/6)

اسی طرح بخاری کی شرح فتح الباری میں موجود ہے کہ “رمضان کی پہلی رات میں اپنے ساتھیوں کو جمع کرتے ، ان کی امامت فرماتے ، ہر رکعت میں بیس آیتوں کی تلاوت فرماتے ، نیز اسی ترتیب پر قرآن ختم فرماتے ، ہر دن سحری تک قرآن کریم کا ایک تہائی حصہ تلاوت فرماتے ، اس طرح تین رات میں قرآن ختم فرماتے اورر مضان کے ہر دن میں ایک قرآن ختم کرتے اور یہ ختم افطار کے موقعہ پر ہوتا اور ہر مرتبہ ختم کرتے ہوئے دعاء کا اہتمام کرتے . ( فتح الباری ، 481/1 ) .

لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم رمضان میں قرآن کی تلاوت خوب کریں اور اسے اپنی زندگی کا جزء لاینفک بنائے رکھیں . اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے . آمین .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here