پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک قرآن و احادیث کی روشنی میں

0
4464

رشحات قلم : محمد زبیر ندوی شیروری

” وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا ” ( النساء )

انسان کا اپنے والدین ، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ سب سے زیادہ واسطہ و تعلق اپنے ہمسایوں اور پڑوسیوں سے بھی ہوتا ہے اور ان کی خوشی و ناخوشی کا زندگی کے چین و سکون اور اخلاق کے اصلاح و فساد اور بناؤ و بگاڑ پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے ۔ دنیا کا ہر انسان ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے کی نصرت وحمایت کا محتاج ہوتا ہے . اگر ایک بھوکا ہے تو دوسرے کا حق ہے کہ اپنے کھانے میں اسے بھی شریک کرے . اگر ایک بیمار ہے تو دوسرا اس کی عیادت و تیمارداری کرے اگر ایک کسی آفت و مصیبت اور کسی رنج و غم میں مبتلا ہو تو دوسرا اس کا شریک بنے اور اس کے رنج و غم میں شریک ہو کر اس کی تسلی کا باعث بنے ۔ انسان بظاہر جسمانی حیثیت سے ایک دوسرے سے جتنا جدا ہوتا ہے اخلاقی و روحانی حیثیت سے وہ اتنا ہی زیادہ ایک دوسرے سے گھلا ملا ہوتا ہے ، اور ایک کا وجود دوسرے کے وجود سے پیوست ہوتا ہے . نبی کریم صلى الله عليه و سلم نے اپنی تعلیمات و ہدایات میں ہمسائگی اور پڑوسی کے اس تعلق کو بڑی عظمت بخشی اور اس کے احترام و رعایت کی بڑی تاکید فرمائی ہے اور اس کو جزو ایمان اور داخل جنت کی شرط اور اللہ اور اس کے رسول سے محبت کا معیار قرار دیا ہے . نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ! ” مَازَالَ جِبْرِیْلُ یُوْصِیْنِی بِالْجَارِ حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنَّہ سَیُوَرِّثُہ ” یعنی جبریل امین ہمیشہ مجھے پڑوسی کی رعایت و امداد کی اس قدر تاکید کرتے رہے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید پڑوسیوں کو بھی رشتہ داروں کی طرح وراثت میں شریک کر دیا جائے گا . پڑوسیوں کے ساتھ حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا اور اچھا رویہ پیش کرنا اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی شرط کا معیار قرار دیا گیا ۔

حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن نبی کریم صلى الله عليه و سلم نے وضوء فرمایا تو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین آپ کے وضوء کا پانی اپنے بدن اور چہرے وغیرہ پر ملنے لگے تو سرکار دوعالم صلى الله عليه و سلم نے دریافت فرمایا کہ اس عمل پر تمھیں کون سی چیز آمادہ و برانگیختہ کر رہی ہے اور تم ایسا کیوں کر رہے ہو ؟ تو صحابہ کرام کا جواب تھا کہ بس اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے . تب آپ نے ارشاد فرمایا سنو ! جو شخص یہ پسند کرتا ہو اور جس کی یہ خواہش ہو کہ اسے اللہ اور اس کے رسول کی محبت نصیب ہو جائے یا یہ کہ اللہ و رسول کو اس سے محبت ہو تو اسے تین باتوں کا اہتمام کرنا چاہئے . جب بات کرے تو سچ بولے . جب کوئی امانت اس کے پاس رکھی جائے تو امانت داری کے ساتھ اس کو ادا کرے . اور اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے . ( رواہ البیہقی فی شعب الایمان )

ایک موقعہ پر سرکار دوعالم صلى الله عليه و سلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اکرام کا معاملہ کرے . ( ترمذی )

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ! محلہ کے لوگوں میں اللہ کے نزدیک سب سے افضل اور بہتر وہ شخص ہے جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہو .

ایک روایت میں نبی کریم صلى الله عليه و سلم کا فرمان ہے کہ ایک پڑوسی کو پیٹ بھر کر کھانا جائز نہیں جبکہ اس کا پڑوسی بھوکا ہو ، کسی شخص کا نیکوکار یا بدکار ہونا اس کے پڑوسی کی گواہی کے ذریعہ معلوم ہوگا ، ایک شخص نے نبی کریم صلى الله عليه و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ !میں اپنی نیکوکاری و بدکاری کو کس طرح معلوم کر سکتا ہوں ؟ حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ! جب تم کسی کام کے بارے میں اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم نے اچھا کام کیا تو تمہارا کام اچھا ہے ، اور جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم نے برا کیا ہے تو تمہارا وہ کام برا ہے .

ایک روایت میں ہے کہ ” لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ لاَ یَأمَنُ جَارُہ بَوَائقَہ “جنت میں اس شخص کا داخلہ ممنوع ہے جس کی شرارتوں اور ایذاء رسانیوں سے اس کے پڑوسی مامون نہ ہوں .

ایک حدیث میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے تین مرتبہ قسم کھا کر فرمایا ! خدا کی قسم وہ مومن نہیں خدا کی قسم وہ مومن نہیں خدا کی قسم وہ مومن نہیں . صحابہ نے دریافت کیا کہ کون یا رسول اللہ ! تو آپ نے فرمایا کہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو . ( مسلم )

پڑوسیوں سے محبت و تعلقات کی استواری کا ایک بہترین ذریعہ آپس میں ایک دوسرے کو تحفے تحائف دینا ہے . سرکارِ دو عالم صلى الله عليه و سلم خود اپنی بیوی کو اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے . اسی بناء پر ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے دو پڑوسی ہیں میں ان میں سے کس کو پہلے یا زیادہ ہدیہ بھیجوں آپ نے فرمایا جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے زیادہ قریب ہو . ( مشکوٰة )

ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا جب تم سالن بناؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو اور اپنے ہمسایوں کی خبر گیری کرو . یعنی صرف اپنی ضرورت کے پیش نظر سالن نہ بناؤ بلکہ ضرورت مند ہمسایوں کا بھی خیال رکھو اور ان کے گھر بھی سالن بھیجو .

ہمسائیگی کے تعلق کو مستحکم و خوشگوار رکھنے کے لئے پڑوسیوں کے درمیان کچھ نہ کچھ صدقہ و تحفہ دینے لینے کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے اور اس کے لئے صرف بڑی اور اعلیٰ چیزوں ہی کو مد نظر نہیں رکھنا چاہئے اور نہ ہی چھوٹی موٹی چیزوں کے لین دین میں حقارت محسوس کرنی چاہئے . حضور صلى الله عليه و سلم نے عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ! اے مسلمان عورتو ! کوئی ہمسائی اپنی ہمسائی کے لئے ہدیہ و صدقہ کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ کہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو . ( بخاری و مسلم )

ایک مسلمان کے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ خود راحت اور عیش و آرام سے زندگی بسر کرے اور اپنے ہمسایہ کے رنج و تکلیف اور گھریلو ضروریات کی پرواہ نہ کرے . نبی کریم صلى الله عليه و سلم کے ارشاد کے مطابق مومن وہ نہیں جو خود شکم سیر ہو اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے اور وہ اس کے بھوکے ہونے سے باخبر ہو .

ایک روایت میں ہے جس میں نبی کریم صلى الله عليه و سلم نے پڑوسیوں کے حقوق کا درس دیتے ہوئے فرمایا کہ پڑوسی کا تم پر یہ حق ہے کہ اگر پڑوسی کسی بیماری میں مبتلا ہوجائے تو اس کی عیادت و خبر گیری کرو ، اگر اس کا انتقال ہوجائے تو اس کے جنازہ میں شرکت کرو اور اگر کسی ضرورت وغیرہ سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو اور اگر کوئی برا کام کر بیٹھے تو پردہ پوشی کرو اور اگر اس کو کوئی نعمت ملے تو مبارکباد دو اور اگر کسی مصیبت کا شکار ہو جائے تو تعزیت کرو اور اپنی عمارت کو اس کی عمارت سے اس قدر بلند نہ کرو کہ اس کے گھر کی ہوا بند ہوجائے اور تمہارے ہانڈی کی مہک اس کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنے اور اس میں سے کچھ سالن اس کے گھر بھی بھیج دو یعنی اگر گھر میں کوئی لذیذ وخوش ذائقہ چیز بنے اس صورت میں یا تو اس کے گھر بھی کچھ سالن پہنچاؤ یا پھر اس کی خوشبو پڑوس کے گھر تک نہ جانے دو .

مذہب اسلام کے اس اصولی نقطہ نظر سے بآسانی یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں کتنے نازک و باریک پہلوؤں کو ملحوظ رکھا ہے . یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید. نے حقوق العباد کی ادائیگی کی بہت تاکید فرمائی ہے حتی کہ فقہاء نے اس کے پیش نظر حقوق العباد کو حقوق اﷲ پر مقدم فرمایا ہے ۔

ایک حدیث مبارکہ میں نبی اکرمؐ ارشاد فرمایا ! قیامت کے دن منادی حق تعالیٰ کی جانب سے زیر عرش سے ندا لگائیگا کہ اے امت محمد ! میرا جو کچھ حق تمہاری طرف تھا اس کو تو معاف کرچکا سو تم آپس میں ایک دوسرے کو بخش دو اور میری رحمت سے جنت میں داخل ہو جاؤ .

نبی اکرمؐ نے ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی پر خصوصی توجہ دلائی ہے تاکہ ہماری کوتاہی سے کسی کا کوئی حق ہماری طرف نہ رہ جائے . قرآن کا فرمان ہے کہ ” بےشک اللہ ہر ایک کے ساتھ عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے ، وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو ”
( النحل/90 )

ایک روایت میں نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ! کامل مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہے . ( مشکوٰۃ ۔ بخاری )

ہمیں اس حدیث مبارکہ پر عمل پیرا ہو کر رب کائنات کی رضا حاصل کرنا چاہئے اور بندوں کے درمیان اخلاقی رشتہ استوار کرنا چاہئے .

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ تین خصوصیات جس مسلمان میں ہوں گی ﷲ قیامت کے روز اس کا حساب آسانی سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا اور وہ یہ ہیں کہ جو تمھیں محروم کرے تم اسے عطا کرو ، جو تم پر ظلم کرے تم اسے معاف کرو اور جو تم سے قطع تعلق کرے تم اس سے صلہ رحمی کرو . کامل مومن کی پہچان یہی ہے کہ اس کا پڑوسی اس سے خوش رہے اور اس کے اچھا ہونے کی تصدیق کرے .

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو ﷲ اور آخرت کےدن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو ﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ مسلمان کی عزت کرے اور اپنی زبان سے اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے .( صحیح البخاری )

مذکورہ بالا قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں حقوق العباد کی اہمیت کااندازہ بآسانی لگاتے ہوئے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جس شخص نے کسی کا حق مارا ہو اور اپنی موت سے پہلے اس کو نہ لوٹایا ہو اور لوٹانے کی وصیت بھی نہ کی ہو تو جب تک اُس کا حق نہ لوٹایا جائیگا اُس وقت تک بارگاہ الٰہی سے معافی کی قطعی امید بے سود ہو گی .

لہٰذا ہمیں حتی الوسع کوشش کرنی چاہئے کہ کسی کا کوئی حق ہم پر باقی نہ رہے . یاد رکھیں ! کہ حقوق اللہ تو رحمت الٰہی سے معاف ہو سکتے ہیں لیکن خلق کے ساتھ حق تلفی کبھی معاف نہیں ہوسکتی جیسا کہ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں ایک عورت کا ذکر آیا کہ وہ بہت نیک اور نمازی ہے ، روزے رکھتی ہے اور کثرت سے قرآن کی تلاوت کرتی ہے لیکن زبان دراز ہے ، اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے ، یہ سن کر حضور ﷺ نےفرمایا کہ وہ دوزخی ہے .

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام فرائض کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی بھی توفیق عطا فرمائے . آمین .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here