سنہ 2019 ء کے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے شعبہ عالمیت سے فارغ التحصیل طالب علم کے تاثرات

1
1840

امسال سنہ 2019 ء میں قوم ناخدا کے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے شعبہ عالمیت سے فارغ التحصیل طالب علم مولوی عبدالمقسط بن اقبال بنگالی ، ساکن فردوس نگر ، تینگن گنڈی ، ہیبلے ، بھٹکل کے تاثرات

اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ وَالصَّلَاۃُ والسَّلَامُ عَلٰی مَنْ لَّا نَبِیَّ بَعْدَہٗ . اَمَّا بَعْدُ :

قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ فِی الْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ وَ الْفُرْقَانِ الْحَمِیْدِ . أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ . بِسْمِ اللْٰهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِیْمِ . ” خَلَقَ الْاِنْسَانَ عَلَّمَهُ البَیَانَ “

صدر جلسہ ، اساتذۂ کرام ، مہمانانِ عظام ، عزیز أصدقاء و طلباء !

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

آج کی یہ پر بہار اور باوقار محفل ، ہمارے ان احباب واعزاء کو الوداع کہنے کے لئے سجائی گئی ہے جو ہم سے جدا ہوا چاہتے ہیں اور ہمیں داغ مفارقت دے کر اپنا رخت سفر باندھنے کو تیار بیٹھے ہیں . اس وقت میں آپ کے سامنے اپنے بیتے لمحات اور دلی احساسات کو دہرانا چاہتا ہوں لیکن دل میں رہ رہ کر یہ خیال آرہا ہے کہ کن الفاظ میں اپنے بیتے لمحات کو بیان کر کے اپنے احساسات کی صحیح ترجمانی کر سکوں .

آہ ! آخر کار وہ فرقت کی گھڑی آہی گئی کاش کہ کچھ اور وقت رہ پاتا کہ میں اس چمن سے مزید کچھ وقت لطف اندوز ہو سکتا ، اس کے کھلتے پھولوں کو اپنے دامن میں بھر دیتا اور اس کی حسیں وادیوں میں گھومتا پھرتا ، لیکن زمانہ کا دستور اور مسلمہ بات یہ ہے کہ انسان کو کبھی کبھی ان چیزوں کو بادل ناخواستہ الوداع کہنا پڑتا ہے جن سے اسے رغبت ہوتی ہے . کتنے تیزی کے ساتھ دن گذرتے گئے کچھ پتہ ہی نہ چلا . ایسا لگ رہا ہے کہ کل ہی جامعہ میں آیا تھا اور آج اسے الوداع کہہ رہا ہوں یہاں تک کہ گذرتے دنوں نے مجھے آپ کے سامنے اپنے بیتے لمحات و احساسات کو بیان کرنے کے لئے لا کھڑا کر دیا ہے . ” لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو “

حضرات ! میں اپنے والدین کا اکلوتا اور لاڈلا بیٹا ہوں لہذا میری پرورش بڑے ناز و نعم سے ہوئی اور انھوں نے مجھے کبھی کسی چیز کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا لیکن اس کے باوجود انھوں نے میرا داخلہ عصری اسکول کے بجائے اپنے علاقہ کے ادارہ ، مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن ، تینگن گنڈی بھٹکل میں کرایا . ابھی اس گلستان کی آب و ہوا میں آئے کچھ دیر ہی نہیں ہوئی تھی کہ میں سوم مکتب میں پہنچ کر مدرسہ جانے سے جی چرانے لگا اور کھیل کود میں دلچسپی لینے لگا لیکن میری والدہ مجھے کسی طرح سمجھا بجھا کر مدرسہ لے جاتی اور مجھے وہاں چھوڑ آتی . اسی طرح رفتہ رفتہ میں نے مکتب کی تعلیم مکمل کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مزید دو سالہ عالمیت کی تعلیم بھی حاصل کی . دوران تعلیم وہاں کے اساتذہ کرام کی میرے اوپر خصوصی شفقت و محبت کی نظر رہی ، خصوصاً مولانا محمد سعود ندوی بنگالی ، مولانا اسحاق ندوی ڈانگی اور مولانا اسماعیل ندوی پوتکار کی .

بعدازاں میرا داخلہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں طے پایا تو میں نے مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن گنڈی کو خیر باد کہا اور میرا داخلہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے درجہ سوم عربی میں کیا گیا تو میں منزل بہ منزل درجات طے کرتا ہوا عالیہ ثانیہ پہنچا تو میرے ایک ساتھی نے ادارہ ہذا کو خیر باد کہا تو یہ لمحات میرے لئے ایک آزمائش بن کر سامنے آئے . ” قیامت ہے دلِ مہجور کا احساس تنہائی     اکیلے اب تو ہم اکثر بھری محفل میں رہتے ہیں “

میں دل ہی دل میں یہ سوچنے لگا کہ میں اس ادارہ میں پڑھ کر کیا کروں گا لہذا مجھے کسی اسکول میں اپنا داخلہ لینا ہوگا اور عصری تعلیم حاصل کرنی ہوگی . لیکن اس کو خدائے تعالیٰ کا فضل ہی سمجھئے کہ جس وقت میرے دل میں یہ خیال آتا اسی وقت میرے کانوں میں کسی نہ کسی مولانا کی زبانی مدرسہ اور علم دین کی اہمیت و فضیلت کی آواز کانوں میں پڑتی . آخر کار میں نے یہ عزم مصمم کر لیا کہ اب میں مدرسہ میں پڑھوں گا اور اپنی تعلیم مکمل کروں گا . اسی کا نتیجہ تھا کہ آج میرے والدین کا دیکھا ہوا خواب سچ ہونے جا رہا ہے کہ وہ اپنے لختِ جگر کو علماء کے زمرہ میں شامل ہوتا دیکھ رہے ہیں . ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء .

حضرات : میں نے چھ سال جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں گذارے اس دوران ایسے حالات آئے جو دلوں کو چیرنے والے تھے جس وقت میرے کانوں نے ایک ناگوار خبر سنی جس نے میری آنکھوں کو آبدیدہ کردیا کہ سابق مہتمم مدرسہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا عبدالباری صاحب ندوی اس دار فانی سے رفیق اعلیٰ سے جا ملے . انا للہ وانا الیہ راجعون . میں ان کا ہر وقت ممنون و مشکور رہوں گا . اللہ سے دعا ہے کہ وہ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے . آمین .

چلتے چلتے میں اپنے ان تمام اساتذہ کرام رشتہ داروں اور رفقاء کا شکر گذار ہوں جو میری تعلیم کے لئے ہر وقت کوشاں رہے ، خصوصاً مہتمم جامعہ اسلامیہ کا جو وقتاً فوقتاً اپنے مفید نصائح سے نوازتے رہے . اور میں اپنے والدین کا بھی شکر گذار ہوں کہ انھوں نے اپنے لختِ جگر کو دینی تعلیم کے لئے مدرسہ میں داخل کیا .

اخیر میں ، میں اپنے اساتذہ رشتہ داروں اور دوست و احباب سے معافی کا طلبگار ہوں کہ اگر ان کو مجھ سے دانستہ و نادانستہ طور پر کوئی تکلیف پہنچی ہو تو وہ مجھے معاف فرما دیں .

اب میں رخصت ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ بانیان جامعہ کی بال بال مغفرت فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، اس جامعہ کو تادیر سلامت رکھے اور اس کے روشن منارہ کی روشنی دنیا کے کونہ کونہ میں پہنچائے . آمین .

1 تبصرہ

Leave a Reply to Habibur rahaman جواب منسوخ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here