سمندری حیوانات کی شرعی حیثیت

0
3676

از : مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آباد تینگن گنڈی ، بھٹکل ، امام و خطیب جامع مسجد محمد عشیر علی سلیمان المزروعی ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارات .

الحمد للہ الذی أحل لنا الطیبات ، و حرم علینا الخبائث ، والصلوة والسلام علی أشرف البریات ، وعلی اٰلہ وصحبہ الذین وصفوا بالطاھرات .

سمندری حیوانات اور پانی میں رہنے والے جانداروں یعنی مچھلیوں کے تعلق سے سب سے پہلے اس موضوع پر بحث ضروری ہے کہ آیا پانی میں رہنے والے تمام جانداروں کا شمار مچھلیوں میں ہو گا یا مچھلیوں کے علاوہ میں ؟ مزید برآں مچھلیوں کے علاوہ حیوانات کا کھانا جائز ہے یا نہیں ؟؟ آئیے اس موضوع کو ہم قرآن و حدیث اور اقوال صحابہ و تابعین وغیرہم کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں .

اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمایا ! ” أحل لکم صید البحر وطعامہ…” تمہارے لئے سمندری شکار اور اس کا ( ابن عباس و ابن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنھم کے قول کے مطابق اس کی مری ہوئی حالت میں ساحل پر پھینکی ہوئی چیز ) کھانا حلال کیا گیا ہے . ( سورۃ المائدۃ/96 ) . اسی طرح پانچ ائمہ حدیث کی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول اس حدیث سے بھی اس کی حلت پر استدلال کیا گیا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” ھو الطھور ماءہ ، والحل میتته اس ( سمندر ) کا پانی پاک ہے اور اس کی مری ہوئی چیز حلال ہے . ” امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری ( رحمہ اللہ ) سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا کہ حدیث صحیح ہے . شیخ الاسلام امام شہاب الدین ابن حجر تحفہ (ص/271 ، ج/4) میں اور شمس الدین احمد بن حمزہ رملی، معروف بشافعی صغیر ، نہایہ محتاج ( کے ص/150 ، ج/8 ) میں لکھتے ہیں کہ جمہور صحابہ اور تابعین ( رضی اللہ عنھم اجمعین ) نے ( قرآن میں آئے ہوئے ) ” وطعامہ ” کی تفسیر اس مچھلی سے کی ہے جو مر کر سطح سمندر پر آئی ہو .

پانی میں رہنے والے جاندار کے کھانے کے متعلق ائمہِ کرام کی آراء مختصراً کچھ اس طرح ہیں : ہمارے ( شوافعی کے ) پاس اصح دو قولوں میں سے معتمد قول میں مینڈک کے علاوہ پانی میں زندگی بسر کرنے والا ہر حیوان حلال ہے . خواہ وہ جس شکل کا بھی ہو .
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے پاس سمندر میں رہنے والے مچھلی کی علاوہ صورت والے حیوانوں کا کھانا حلال نہیں ، سو ان کے پاس سمندری انسان ، گھوڑے ، کتے اور ان جیسی شکل و صورت والی مچھلیاں کھانا حلال نہیں ، البتہ ان کے پاس جریث ( ایک قسم کی مچھلی ) اور مارماہی ( سانپ کی شکل والی ایک ) مچھلی حلال ہے . اور اسی طرح پانی میں مر کر سطح سمندر پر آئی ہوئی وہ مچھلی جس کا پیٹ اوپر اور پیٹھ نیچے ہوا ہو ، کے علاوہ تمام مچھلیاں کھانا حلال ہے .
امام مالک رحمہ اللہ کے پاس بغیر کسی استثناء کے پانی میں رینے والے تمام حیوان حلال ہیں .
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس بھی سمندری سانپ کے علاوہ تمام حیوانوں کا کھانا حلال ہے ، سمندری سانپ ان کے پاس خبائث میں سے ہے .

حیواناتِ بحر کی تعریف : سمندری حیوانات سے مراد وہ حیوانات ہیں جو صرف پانی ہی میں زندگی گزارتے ہوں اور جب ان کو پانی سے نکالا جاتا ہو تو ان کا زندہ رہنا اسی طرح ہوتا ہو جیسے ایک ذبح کردہ جانور کا ،( یعنی زندہ نہیں رہ سکتے ) یا زندہ تو رہ سکتے ہیں ، لیکن ہمیشہ نہیں .

دوسری قسط

حضرت امام علامہ ابو محمد حسین بن مسعود بن محمد بن فراء ، محدث ، مفسر ، فقیہ ، بغوی ( متوفی 516 ھ ) فقہ شافعی پر لکھی ہوئی اپنی معرکۃ الآراء کتاب ” التھذیب ” میں لکھتے ہیں کہ حیوانات کی تین قسمیں ہیں : پہلی قسم وہ ، جو خشکی پر زندگی بسر کرتی ہے اور اس کا سمندر میں زندہ رہنا ایک مذبوح جانور کی طرح ہوتا ہے . سو ایسے کسی مرے ہوئے حیوان کا کھانا حلال نہیں ، سوائے ٹڈے کے ، کہ مرنے کے بعد بھی اس کا کھانا حلال ہے . اس کے علاوہ تمام حیوان دو قسموں پر منقسم ہوتے ہیں : پہلی قسم وہ ، جس کو ذبح کرنا حلال ہوتا ہے ، اور دوسری وہ ، جس کو ذبح کرنا حلال نہیں . ان شاء اللہ ! عنقریب ہم ان کو بیان کریں گے . ( علامہ بغوی کے الفاظ ہیں ) .
حیوانوں کی دوسری قسم وہ ہے جو سمندر اور خشکی میں یکساں زندہ رہتے ہیں ، جیسے مینڈک ، کیکڑا ، سانپ اور مگرمچھ ، سو ان میں سے کسی کو بھی کھانا حلال نہیں ، مرنے کے بعد اور نہ ہی ذبح کرکے . ( معلوم ہو کہ یہ ہمارا ( شوافع کا ) دو صحیح قولوں میں سے معتمد قول کے خلاف والا قول ہے ، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے ، اور ان شاء اللہ ! پیچھے آئے گا کہ یہی ہمارا اصح المنصوص قول ہے ، جس کو اصحاب شافعی سے روایت کیا گیا ہے ) . حلیمی کہتے ہیں کہ کیکڑے کو ذبح کرکے کھانا حلال ہے .
حیوانوں کی تیسری قسم وہ ہے ، جو صرف پانی ہی میں زندہ رہ سکتی ہے اور ( پانی سے باہر لانے کے بعد ) خشکی میں اسی طرح زندہ رہتی ہے جس طرح کسی جانور کو ذبح کیا جاتا ہے ،( کہ وہ تھوڑی دیر کے بعد مرجاتا ہے ) سو ایسی مچھلی کی بھی دو قسمیں ہیں : ایک مچھلی ، دوسری غیر مچھلی ، اس میں سے صرف مچھلی کو ہی مرنے کے بعد بھی کھانا حلال ہے ، خواہ وہ کسی سبب سے مری ہو ، کہ بغیر کسی سبب کے پانی سے اوپر آکر ، یا سمندر کی گہرائی ہی میں مرکر اوپر آئی ہو ، حتی کہ اگر کسی حیوان کو ذبح کیا جائے اور اس کے پیٹ سے کوئی مری غیر سڑی ہوئی مچھلی نکل آئے تو اس کو بھی کھانا جائز ہے ، اور اگر پیٹ سے نکلی ہوئی مچھلی گلی سڑی ہو تو اس کا کھانا جائز نہیں ، کیونکہ وہ لید ہے اور وہ حلال نہیں . ( امام ) ابو حنیفہ ( رحمہ اللہ ) کہتے ہیں کہ طافی ( پانی میں مرکر اوپر آئی ہوئی ) مچھلی کھانا حلال نہیں . اختلاف کی حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ ان ( احناف ) کے پاس اس وقت مچھلی حلال ہوتی ہے جب وہ کسی ( مچھلیوں وغیرہ ) کے دباؤ ، یا پتھر پر گرنے ، یا پانی کے سمٹ جانے ( اور مچھلی کے مرنے ) کے سبب سے ہو ، تو اس مچھلی کا کھانا حلال ہوگا اور اگر مچھلی کسی سبب کے بغیر مرگئی ہو ، تو وہ حلال نہیں ہوگی ، حتی ک کہا ( امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ) کہ اگر کوئی مچھلی مرگئی اور اس کا آدھا حصہ پانی سے باہر رہا تو دیکھا جائے گا کہ اس کا سر پانی سے باہر ہے یا نہیں ، اگر باہر ہو تو وہ حلال ہوگی، اس لئے کہ وہ دم گھٹنے ( سانس رک جانے ) سے مری ہے . اور اگر اس ( مچھلی ) کا نچلا آدھا حصہ پانی سے باہر ہو تب حلال نہیں . اور حدیث ان کے خلاف حجت ہے . حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے طافی ( مرکر سطح سمندر پر آئی ہوئی ) مچھلی کو کھایا ہے .
آیت کریمہ ” تمہارے لئے سمندری شکار اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ( سورۃ المائدۃ/96 ) کی تفسیر میں امام بغوی اپنی تفسیر ” بغوی ” میں جو ” معالم التنزیل ” سے مشہور ہے ، قلمبند کرتے ہیں کہ” البحر ( سمندر ) سے مراد تمام قسم کا پانی مراد ہے . عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ” اس کا شکار ( سے مراد ) وہ مچھلی ہے جس کا شکار کیا جاتا ہے ( یعنی وہ مچھلی جو جالے ، کانٹے اور اس جیسی چیزوں سے پکڑی جاتی ہے ) اور ( قرآن میں آئے ہوئے لفظ ) ” وطعامہ ” ( سے مراد ) وہ مچھلی ہے جو سمندر نے پھینکی ہو ۔ ” ابن عباس ، ابن عمر اور ابوہریرہ ( رضی اللہ عنھم ) سے نقل کیا گیا ہے کہ ” طعامہ ” سے مراد وہ مچھلی ہے جس کو ( سمندر ، دریا ، ندی یا تالاب کے پانی نے ) مری ہوئی حالت میں ساحل کی طرف پھینکا ہو . ایک قوم کہتی ہے کہ ( و طعامہ سے مراد ) نمکین پانی والی مری ہوئی مچھلی ، اور یہی سعید بن جبیر ، عکرمہ ، سعید بن مسیب ، قتادہ اور نخعی رحمھم اللہ کا قول ہے . مجاہد کہتے ہیں کہ ” صیدہ ” سے مراد تازے پانی کی مچھلی ہے اور ” طعامہ ” سے مراد کھاری پانی کی مچھلی . ( واللہ أعلم )

تیسری قسط

مام بغوی رحمہ اللہ اپنی تفسیر ” معالم التنزيل ” ( ج/8 ، ص/35 ) میں ” أحل لکم صید البحر و طعامہ ” کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ” رہی بات ان سمندری ( پانی میں رہنے والے ) حیوانوں کی جو مچھلی کے علاوہ نام والے ہیں ، کیا اس مرے ہوئے حیوان کا کھانا حلال ہے ؟؟ اس میں ( اصحاب شافعی کے ) چند اقوال ہیں ، جن میں سے ایک میں حلال نہیں ، ( ضعیف ہے ) اور یہی ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خاص مچھلی کو ہی حلال فرمایا ہے .

دوسرے قول میں ( پانی میں رہنے والے ) تمام ہی حیوان حلال ہیں اور یہی اصح ہے ، ( جوکہ معتمد ہے ) اللہ تبارک و تعالیٰ کے قول ” أحل لکم صیدالبحر ” ( سورۃ المائدۃ/96 ) سے استدلال کرتے ہوئے ، جہاں اللہ جل مجدہ نے کسی ( سمندری ) حیوان کو جدا نہیں کیا . اور سمندر کے تعلق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کو مدنظر رکھتے ہوئے ” ھو الطھور ماءہ ، والحل میتتہ ” اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے . ” ( مالک ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ) . ( السید سابق نے اپنی کتاب میں اس حدیث کے متعلق رواہ خمسہ کہا ہے ، غالباً ان کی مراد ، صحاح ستہ میں مسلم کے علاوہ ہو ، بہرحال حدیث کی صحت میں کوئی کلام نہیں ہے ۔ ( واللہ اعلم )
اور ہم میں سے بعض کہتے ہیں کہ اس ( پانی میں رہنے والے حیوانوں ) کی اصل یہ ہے کہ کیا تمام ہی حیوانوں کو حوت ( مچھلی ) کا نام دیا جاسکتا ہے ؟ یا حوت ، خاص سمک ( مچھلی ) ہی کو کہا جاتا ہے ؟ اس کی دو صورتیں ہیں ، اگر ہم کہیں کہ تمام ہی کو حوت کہا جاتا ہے تو تمام ہی حلال ہیں ، ورنہ سمک کے علاوہ اور کچھ حلال نہیں . اور ( دونوں میں سے ) أصح پہلی صورت ہی ہے کہ تمام ہی حوت ہیں ، گوکہ ان کی صورتیں مختلف ہوں ، جن میں سے بعض کی گدھے جیسی ، بعض کتے اور خنزیر سے شباہت رکھنے والی ، جیسا کہ خرتیت ( نامی مچھلی ) سانپ کی شکل و صورت کی ہوتی ہے اور یہ مچھلی ہی کی ایک قسم ہے ، جس کو مرنے کے بعد بھی بالاتفاق کھانا حلال ہے .

اور تیسرا قول یہ ہے کہ جس جنس کی خشکی کی مچھلی ذبح کرکے کھائی جاتی ہو ، اس جنس کی سمندری مری ہوئی مچھلی کا کھانا حلال ہے ، جیسے پانی کی گائے ، پانی کی بکری . اور جس خشکی کے حیوان کو ذبح کر کے کھایا نہ جاتا ہو جیسے گدھا ، کتا اور سور ، تو ایسی سمندر میں مری ہوئی مچھلی کا کھانا حلال نہیں .

پھر جب ہم یہ کہیں کہ مچھلی کے علاوہ کچھ اور حلال نہیں ، پھر اگر وہ ایسے جنس کا حیوان ہو جس کو خشکی میں ذبح کرکے کھایا جاتا ہے ، جیسے پانی کی گائے اور پانی کی بکری ، تب کیا اس ( سمندری گائے یا بکری ) کو کھانا حلال ہوگا ؟ شیخ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کے دو احتمال ہیں جن میں سے ایک میں حلال ہے ، خشکی میں رہنے والے حیوانوں کو ذبح کرنے کی طرح ، اور دوسرے احتمال میں وہ حیوان حلال نہیں ہوگا ، اس لئے کہ درحقیقت وہ نہ تو گائے ہے اور نہ بکری ، اور جب ہم کہیں جس حیوان کی جنس کو خشکی میں کھایا جانا حلال ہے ، تب کیا ایسے پانی والے حیوان کو ( بھی ) ذبح ( کر کے کھایا ) جائے گا ؟ دو قول ہیں ، واللہ اعلم . ( التہذیب ، ج/8 ، ص/36 )

چوتھی قسط

علامہ السید سابق اپنی مشہور کتاب ” فقہ السنہ ” کی تیسری جلد کے صفحہ نمبر 178 میں رقمطراز ہیں ” رہا مسئلہ سمندری حیوانوں کا سو یہ تمام حلال ہیں . حیوان بری ( خشکی میں زندگی گذارنے والے حیوانوں ) میں وہ حیوان ہیں جن کا کھانا حلال ہے اور ایسے حیوان ہیں جن کا کھانا حرام ہے ، اسلام نے ان تمام حیوانوں کی تفصیل بیان کی ہے اور ان کو خوب واضح اور پورے طریقہ سے بیان کیا ہے ، بمصداق اللہ عزوجل کے قول ” وقد فصل لکم ماحرم علیکم الا مااضطررتم إلیہ ” اور تحقیق اس نے تمہارے لئے اس ( حیوان ) کی تفصیل بیان کی جس کو اس نے تم پر حرام کر دیا ہے مگر یہ کہ تم اس کی طرف محتاج ( اس کے کھانے پر مجبور ) ہوں ( الانعام/119 ) کی یہ تفصیل تین امور پر مشتمل ہوکر آتی ہے . پہلا امر : اس حیوان کے مباح ہونے پر نص کا آنا ، دوسرا امر اس کے حرام ہونے پر نص کا آنا اور تیسرا امر : اس حیوان سے شارح کا خاموش رہنا ۔

جس حیوان کے مباح ہونے پر شارح کی جو نص وارد ہوئی ہے وہ ہم بیان کر رہے ہیں : حیوان بحری : پورے کے پورے حیوان بحری حلال ہیں ، اس میں کچھ بھی حرام نہیں مگر وہ حیوان جس میں نقصان پہونچانے والا زہر ہو ، خواہ وہ مچھلی کی شکل میں ہو کہ اس کے علاوہ کی شکل میں . اور خواہ اس کو شکار کرکے حاصل کیا گیا ہو کہ مری ہوئی حالت میں پایا ہو اور خواہ اس کو کسی مسلمان نے شکار کرکے پکڑا ہو ، کسی کتابی نے ، کہ کسی وثنی نے اور خواہ پانی والی مچھلی کی شکل وصورت والا کوئی حیوان خشکی میں موجود ہو کہ نہیں اور حیوان بحری کسی پاکی کی محتاج نہیں ، اور اس سلسلہ میں بنیادی دلیل اللہ عزوجل کا یہ قول ” أحل لکم صیدالبحر وطعامہ متاعا لکم وللسیارة ” تمہارے لئے سمندری شکار اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ، تمہارے اور مسافروں کے لئے فائدہ کے طور پر ( المائدہ/96 ) ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا ! ” صیدالبحر وطعامہ ” وہ حیوان ہے جس کو سمندر نے ( باہر ) پھینکا ہو ” ( دار قطنی ) نیز ابن عباس سے طعامہ کا معنی” مری ہوئی مچھلی ” آیا ہے ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا ! یارسول اللہ ! صلی اللہ علیہ و سلم !ہم سمندر میں جاتے ہیں اور اپنے ساتھ تھورا سا ( میٹھا ) پانی ساتھ لے جاتے ہیں ، اگر ہم اس سے وضو کریں تو پیاسے رہ جائیں ، سو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کرلیا کریں ؟ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے ” ( پانچ ائمہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ) امام ترمذی نے اس کو حدیث حسن صحیح کہا ہے ۔ میں نے محمد بن اسماعیل سے اس حدیث کے تعلق سے پوچھا تو انھوں نے کہا حدیث صحیح ہے ۔( السید سابق،ج/سوم ، ص/179 )

پانچویں قسط

اس بات پر سیر حاصل بحث کی گئی کہ سمندر میں رہنے والے ( مینڈک کے علاوہ ) تمام حیوان ( امام ابوحنیفہ کے علاوہ ) تمام ائمہِ کرام کے پاس بغیر کسی استثناء کے حلال ہیں اور یہی ہمارا ( شوافع کا ) أصح دو قولوں میں سے معتمد قول ہے ۔ اور سمندر کے حیوانوں میں اس کے اندر مر کر اوپر آئی ہوئی مچھلی کا کھانا بھی حلال ہے خواہ وہ جس طرح بھی مری ہو ، یہی جمہور صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم کا مذہب ہے ۔ اللہ عزوجل کے قول ” أحل لکم صیدالبحر وطعامہ ” میں آئے ہوئے لفظ ” وطعامہ ” کی تفسیر انھوں نے اس مچھلی سے کی ہے جو مر کر سطحِ سمندر پر آئی ہو ۔ جس کو عربی میں ” طافی ” کہتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ” طافی ” عنبر ( وھیل ) کو تناول فرمایا ہے ۔ اور صحیح اور معتمد قول میں کیکڑا ، جس کو پانی کا بچھو کہتے ہیں ” نسناس ( بندر کی شکل کی سمندری مچھلی ) مگرمچھ ( گھڑیال ) سمندری کچھوا ،( سمندری ) سانپ ، جھینگے ، شیونڈی ( جھینگے سے ملی جلی ایک مچھلی ) قرش ( شارک ) اور ایسے تمام حیوان حلال ہیں ، خواہ جس شکل کے بھی ہوں ، حیوان کی شکل کے ، کہ انسان کی شکل کے ، پرندے کی شکل والے کہ درندہ کی شکل والے ۔

دوسرے ہمارے ایک قول میں مچھلی ( کی طرح نظر آنے والے حیوان ) کے علاوہ پانی کا کوئی اور حیوان حلال نہیں ، ( ضعیف ہے ) حدیث : ” أحلت لنا میتتان ودمان ، فأما المیتتان ، الحوت والجراد ، وأما الدمان : الکبد والطحال ” ہمارے لئے دو مری ہوئی چیزیں اور دو خون حلال کئے گئے ، دو مری ہوئی چیزیں مچھلی اور ٹڈا ، اور دوخون ، جگر اور تلی . ( شافعی ، احمد ، ابن ماجہ ، دار قطنی ، بیہقی اور بغوی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے ) . اس قول کو آگے گذرے ہوئے قول کے ذریعہ رد کیا گیا کہ پانی میں رہنے والے تمام حیوانوں کو مچھلی کہتے ہیں ۔ ایک اور اصح قول میں ( تاہم یہ اصح المنصوص قول کے خلاف والا قول ہے ) پانی اور پانی کے باہر رہ کر زندگی گذار نے والے حیوانوں کا کھانا حلال نہیں ، جیسے مینڈک ، کیکڑا ( اس سے مراد کالا قسم کا کیکڑا ہے ، جو کئی دن پانی کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے ، رہی اس کیکڑے کی بات جو سفید اور چھینٹے والا رہتا ہے ، اور پانی سے باہر آنے کے بعد جلد ہی مرجاتا ہے ، سو یہ بلا کراہت حلال ہے ) سانپ ، ( جیسی مچھلی ) مگرمچھ ، نسناس ، کچھوا اور تمام زہریلی مچھلیاں ( یہ اصح اور معتمد قول میں بھی ) حرام ہیں ، روضہ اور اصل روضہ میں ان حیوانوں کو حرام کہا ہے ، اور امام نووی بھی مجموع ( مسلک شافعی کی ایک انتہائی بسیط کتاب جو پچیس تیس سال قبل دس جلدوں پر مشتمل تھی ، لیکن اب حاشیہ وغیرہ کی تفصیل کے ساتھ تیس جلدوں پر مشتمل ہے ) میں ایک جگہ میں اسی پر چل پڑے تھے ، لیکن پھر انھوں نے مجموع ہی میں روضہ اور اصل روضہ کا تعقب کرکے کہا ! ” صحیح معتمد یہی ہے کہ سمندر میں رہنے والے تمام حیوان سوائے مینڈک کے حلال ہیں ” ( یعنی اور زہریلی مچھلیوں کے سوا ) اسی قول کو امام ابن صباغ نے امام شافعی رحمہ اللہ کے اصحاب سے نقل کیا ہے کہ مینڈک کے علاوہ سمندر میں رہنے والی ہر چیز حلال ہے ۔اور جو بات ذکر کی گئی ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے اصحاب ، یا بعض اصحاب نے کہا ہے کہ کچھوا ، سانپ اور نسناس حرام ہے ، اس کو خشکی میں رہنے والے حیوانوں پر محمول کیا جائے گا ۔ ( ایسے میں دونوں قول میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا )

چھٹی قسط

اس مسئلہ کو تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے کہ پانی میں اپنی زندگی گزارنے والے تمام حیوانوں کو مچھلی کہتے ہیں اور قرآن کریم کی آیت کریمہ ” تمہارے لئے سمندری شکار اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ” سے استدلال کرتے ہوئے اس کی تفسیر کے طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین وغیرہم کے اقوال کو بھی بیان کیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث مبارک سے بھی استدلال کیا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” وہ ( سمندر ) کہ اس کا پانی طہور ہے اور اس کا مرا ہوا ( حیوان ، مچھلی ) پاک ہے ” خواہ وہ جس طرح بھی مری ہو ، پانی کی گہرائی میں ، یا پانی کے اوپر آکر ، یا ساحل سمندر پر آکر ، اگر وہ گلی سڑی نہیں ہو ، یا زہریلی نہ ہو تو اس کو کھانا حلال ہے ۔ دوسری یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ سمندر میں رہنے والا ہر حیوان معتمد قول پر مچھلی ہی ہے اور مینڈک کے علاوہ تمام پانی میں رہنے والے حیوانوں کا کھانا حلال ہے ، خواہ وہ کس شکل کے بھی ہوں ، یعنی مشہور مچھلی کی شکل کے علاوہ شکل کے ہوں ، گائے ، گھوڑے ، اونٹ ، بکری ، گدھے اور ہاتھی کی شکل وصورت کے رہنے پر بھی ۔ حتی کہ آدمی اور کتے کی شکل والی مچھلیاں بھی ، جیسا کہ علماءِ عظام نے لکھا ہے ، شیخ ابوضیاء نورالدین علی بن علی شبراملسی ( المتوفی/1087ھ ) شارح احمد بن حمزہ بن شہاب الدین الرملی مشہور بہ شافعی صغیر ،( متوفی/1004ھ ) کے الفاظ ” اور سمندر کے ہر حیوان پر مچھلی کا نام واقع ہوتا ہے ، اگر چہ کہ وہ اپنے مشہور صورت پر نہ ہو ” پر حاشیہ لکھتے ہیں ! اور بلکہ خشکی میں رہنے والے ان حیوانوں کی صورت میں ہوں جن کو کھایا نہیں جاتا ہو ، ( یعنی کھانا حرام ہو ) جیسے آدمی اور کتا ” ( نہایة المحتاج ، ج/8 ، ص/113 ) . شیخ محمد بن احمد شربینی قاہری ، معروف بہ خطیب شربینی ( متوفی 977 ھ ) الاقناع فی حل الفاظ ابی شجاع ، میں ، اگر چہ کہ وہ اپنے مشہور شکل وصورت پر نہ ہو کے بعد لکھتے ہیں جیسے کتے ، سور اور گھوڑے کی شکل وصورت والی مچھلیاں ” ( جلد 5 ، ص/ 230 ) . فتح المعین میں شیخ زین الدین بن عبدالعزیز الملیباری الفنانی ، قلمبند کرتے ہیں : مجموع میں ( امام نووی نے ) کہا : صحیح اور معتمد یہی ہے کہ سمندر میں رہنے والے تمام مرے ہوئے حیوان حلال ہیں ، سوائے مینڈک کے اور اس کی تائید ابن صباغ کے ( امام شافعی رحمہ اللہ کے ) اصحاب سے نقل کردہ قول سے ہوتی ہے کہ مینڈک کے علاوہ سمندر میں رہنے والی تمام چیزیں حلال ہیں ۔( فتح المعین ، ج/2 ، ص/ 352 )

ساتویں قسط

حاصل کلام یہ ہے کہ پانی میں زندگی بسر کرنے والے مینڈک کے علاوہ تمام حیوان حلال ہیں ، اور یہ سب مچھلی کہلاتے ہیں ، البتہ ایک قول میں چند حیوان اس سے مستثنیٰ ہیں ، جن میں تِمْسَاح ، سٌلَحْفَاةْ ، اور سَرْطَانْ ( مگرمچھ ، سمندری کچھوا اور کیکڑا ) شامل ہیں ، جن کی تائید ہمارے چند جید علماء کرام نے کی ہے ، لیکن یہ قول ” صحیح معتمد قول کے خلاف ہے ۔

امام شافعی رضی اللہ عنہ نے صراحتا کہا ہے کہ جو سمندری حیوان صرف اسی میں زندگی گزارتے ہیں ، وہ ( تمام ) کھائے جانے والے حیوان ہیں کیونکہ آیت کریمہ ” اٌحِلَّ لَكٌمْ صَيْدُالْبَحْرِ وَطَعَاَمٌه ” اورحدیث شرہف ” اٌحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ السَّمَكٌ وَالْجَرَادٌ ” تمہارے لئے سمندر کا شکار کرنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ” . ہمارے لئے دومری ہوئی چیزیں حلال کی گئیں ، مچھلی اور ٹڈا ” ۔ ( عام ہے ) ( یعنی سمندر میں رہنے والی تمام چیزیں ہمارا کھانا ہیں . اسی طرح حدیث میں مری ہوئی مچھلی ” کھانا حلال کیا گیا ہے ، فرمایا گیا ، یعنی جس طرح بھی وہ مری ہو اس کا کھانا حلال ہے ، بشرطیکہ وہ سڑی نہ ہو اور نہ ہی کوئی زہرآلود مچھلی ہو ) عربی میں قاعدہ ہے ” مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے اور مقید اپنی قید کی ہوئی چیز پر جاری ہوتا ہے . قرآن مجید نے مطلقاً سمندری شکار کرنا اور اس کا کھانا حلال ٹہرایا ہے ، کسی مچھلی میں نہ کھانے کی قید نہیں لگائی ہے ، اسی طرح حدیث شریف میں بھی مچھلی کا کھانا حلال ہے کہا ہے ، مری ہوئی ہو کہ زندہ ، اور کسی مچھلی کے متعلق نہ کھانے کی قید نہیں لگائی ، لہذا سمندر میں رہنے والے تمام حیوانوں کو کھانا حلال ہوگیا . واللہ اعلم ۔

اب آئیے ! سمندر میں رہنے والی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عجائبات پر ایک مختصر سی نظر ڈالتے ہیں . مقاتل بن حیان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ” اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کائنات میں اسی ہزار قسم کی مخلوقات ہیں ، چالیس ہزار سمندر میں اور چالیس ہزار خشکی میں ” ۔( بجیرمی ، ج/5 ، ص/232 ) . امام طبرانی نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی طرف سند کو جوڑتے ہوئے حدیث بیان کی ہے کہ حضرت حسن کہتے ہیں ” ہم دسترخوان پر بیٹھے کھارہے تھے ، میں، میرا بھائی محمد بن حنفیہ اور میرے چچازاد بھائی عباس کی اولاد ، عبداللہ ، قاسم ، اور فضل ، تبھی دسترخوان پر ایک ٹڈا گرگیا ، عبداللہ نے اس کو پکڑ لیا اور کہنے ( پوچھنے ) لگے ، اس پر کیا لکھا ہوا ہے ؟ میں ( حسن ) نے کہا کہ میں نے اس کے تعلق سے میرے باپ ( علی ) امیرالمؤمنین سے پوچھا تھا ، انھوں ( علی رضی اللہ عنہ ) نے کہا کہ میں نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا تھا ، تو آپ نے فرمایا ! اس پر لکھا ہے ” میں اللہ ہوں ، میرے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ، ٹڈے کا رب اور اس کو رزق دینے والا ہوں ، اگر میں چاہوں تو اس کو کسی قوم کے لئے رزق کے طور پر بھیجوں اور اگر چاہوں تو کسی قوم کے لئے بطور بلا کے بھیجوں ” ۔ تب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا ! ” یہ علم مکنون میں سے ہے ” نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” اللہ عزوجل نے ایک ہزار ( قسم کی ) مخلوقات کو پیدا فرمایا ، ان میں سے چھ سو سمندر میں اور چار سو خشکی میں ، اور بیشک اس امت میں سب سے پہلے ٹڈے ہلاک ہوں گے ، جب ٹڈے ہلاک ہوں گے تو ( دوسری ) امتیں پے درپے ہلاک ہونا شروع ہوجائیں گی ۔( بجیرمی ، ج/5 ، ص/231 ) . واللہ اعلم .

آٹھویں قسط

بات صاف ہو گئی ہے کہ مینڈک کے علاوہ تمام پانی کے حیوان حلال ہیں ، آخر مینڈک کے حرام ہونے کی کیا وجہ ہے ؟ ابوعبداللہ قرطبی کی ” الزاھر ” ( نامی کتاب ) میں ہے کہ حضرت داؤد علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا ! ضرور ( آج ) رات میں ( اللہ کی ) اتنی تسبیح کروں گا کہ اس کی مخلوقات میں سے کسی نے بھی اتنی تسبیحات نہ کی ہوں گی ، تبھی آپ کے گھر کے بغل سے ایک مینڈک نے آپ کو آواز دی ، اے داؤد ! کیا آپ اپنی تسبیح کرنے کے ذریعہ اللہ پر فخر کر رہے ہیں ؟( مجھے دیکھئے ) مجھے ستر سال ہوئے میری زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے کبھی سوکھی ( بند ) نہیں ہوئی اور مجھ پر ( آج ) دس راتیں گزریں جن میں ، میں نے نہ تو کوئی ہری ( تازی ) چیز کھائی ہے اور نہ ہی کچھ پانی پیا ہے ، ان دوکلموں میں مشغول ہونے کی وجہ سے ، آپ نے پوچھا ! وہ کونسے دو کلمے ہیں ؟ ” کہنے لگا ! يَامٌسَبَّحًا بِكٌلٍّ لِسَانٍ ، وَمَذْكٌوْرًابِكٌلٍّ مَكَانٍ . اے ہر زبان سے تسبیح بیان کئے گئے ، اے ہر جگہ سے یاد کئے گئے ، حضرت داؤد ( علیہ السلام ) نے اپنے دل میں کہا ، کیا بعید ہے کہ میں اس سے بھی زیادہ بلیغ ( تسبیح ) بیان کروں .

فقہائے کرام کہتے ہیں کہ مینڈک کو اس لئے حرام کیا گیا کہ وہ اس پانی میں اللہ ( جل مجدہ ) کا پڑوسی ہے جس پر آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے سے پہلے اس کا عرش تھا ، اللہ عزوجل نے فرمایا ! ” وکان عرشہ علی الماء . ( ھود/7 ) ( بجیرمی 232/5 ) علامہ بجیرمی امام دمیری کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ سمندر میں اتنے عجائبات ہیں جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا ، اور ان عجائبات میں سے ایک ” شیخ یہودی ” بھی ہے ، شیخ ابواحمد قزوینی ” عجائب المخلوقات ” میں کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا حیوان ہے جس کا چہرہ انسان کے چہرہ کی طرح ہے ، اس کو ایک سفید داڑھی بھی ہے ، اور اس کا بدن مینڈک کے جسم کی طرح ہے اور اس کے بال گائے کے بالوں کی طرح ہیں ، قد و قامت میں بچھڑے کے برابر ہوتا ہے ، سمندر سے سنیچر کی رات میں نکل کر بدستور رہتا ہے حتی کہ اتوار کی شب کا آفتاب غروب ہوتا ہے ، اسی طرح اچھل ( اچھل کر ) چلتاہے جیسے مینڈک ، اور پانی میں گھس جاتا ہے ، اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو کھانا حلال ہے ، کیونکہ یہ مچھلیوں کے عموم میں داخل ہے ۔ اور قرش (موری ، بڑا چاٹا ، مگر ، گریٹ وائٹ شارک ) سمندر کا ایک بڑا حیوان ( ڈھائی تین ٹن تک ہوتا ہے ) سمندر میں کشتیوں کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے ، کشتی کو دھکا دے کر اس کو پلٹاتا ہے اور اس پر ضرب لگا کر اس کو توڑ دیتا ہے ، اس کی ایک شان ( حالت ) یہ بھی ہے کہ وہ جہازوں کے آڑے آتا ہے ، کوئی چیز اس کو لوٹنے پر مجبور نہیں کرسکتی ، مگر یہ کہ کشتی والے آگ سلگاتے ہوئے اس کے سامنے سے برق کی سی تیزی کے ساتھ اس کے آگے سے گذر جاتے ہیں اور اسی ( قرش ) سے قریش کو قریش کہا جاتاہے ، اور قرش اس بحر قلزم ( غالبا اس کو بحراحمر ، یا ریڈ سی کہتے ہیں ) میں پایا جاتا ہے جس میں فرعون کو غرق کیا گیا تھا ، ( موجودہ دور میں شاید ہر سمندر میں پایا جاتا ہے ) اور یہ عقبہ حاج کے پاس ہے ۔ بنات روم : وہ مچھلیاں جو بحر روم میں پائی جاتی ہیں ، عورتوں سے مشابہ ہوتی ہیں ، ان کے لمبے لمبے بال ہوتے ہیں ، گندمی رنگ کی ، بڑی بڑی شرمگاہوں اور سینوں والی ، ان کی باتیں سمجھی نہیں جاتیں ، ہنستی اور قہقہ لگاتی ہیں ، کبھی کبھی بعض سمندری مسافروں کے ہاتھوں لگ جاتی ہیں تو وہ ان سے نکاح کر لیتے ہیں ، پہر انہیں سمندر میں چھوڑ دیتے ہیں ، امام رؤیانی نے صاحب بحر ، ( مصنف ) سےحکایت کی ہے کہ جب کوئی مچھلہارا کسی ایسی مچھلی کے پاس آتا ہے تو قسم کھاتا ہے کہ وہ اس سے نکاح نہیں کرے گا ۔( بجیرمی ۔ ج/5 ، ص/229 ، بحوالہ دمیری )

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here