قرآن کی عظمت اور اس کو سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت

0
2498

رشحات قلم : مولانا محمد زبیر ندوی شیروری

قرآن کریم کی عظمت اور اس کا تعارف خود قرآن سے جس عمدہ طریقہ سے ہو سکتا ہے وہ کسی اور ذریعہ سے ممکن نہیں . کیوں کہ یہ اللہ کا کلام ہے جس کی کاملیت کی وضاحت سے انسان عاجز و بے بس نظر آتا ہے .

ہر مومن فرد بشر کو قرآن سے متعارف ہونا ضروری ہے ، تبھی وہ قرآن کی اہمیت ، معنویت و افادیت کو سمجھ سکتا ہے اور یہ جان سکتا ہے کہ قرآن ہر انسان کے لئے وہ مکمل ضابطہِ حیات اور رشد وہدایت کا سرچشمہ ہے جس میں تمام انسانی امور کے حل کا سامان اور صحیح رہنمائی ہے . ﻗﺮﺁﻥ ﺍﯾﺴﺎ ﭼﺮﺍﻍ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻟﻮ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ اور اس ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻧﯽ ﻻﻣﺘﻨﺎﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﺪﯼ و سرمدی ہوتے ہیں . ﻗﺮﺁﻥ ﻭﮦ ﺁﺳﻤﺎﻧﯽ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﺮﻭﯼ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﮐﯽ ﺿﻤﺎﻧﺖ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ . ﮨﺮ ﺁﯾﺖ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮐﺎ ﺳﺮﭼﺸﻤﮧ ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻤﺖ ﻭ رہنمائی ﮐﯽ ﮐﺎﻥ ﮨﮯ . ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺑﺪﯼ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ ﻭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻓﻼﺡ ﻭ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﮐﺎ ﺁﺭﺯﻭ ﻣﻨﺪ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﭼﺎہئے ﮐﮧ وہ ﺷﺐ ﻭ ﺭﻭﺯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ کی غور فکر کے ساتھ تلاوت کرے ، اس کے احکامات پر عمل کرے ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﯾﺎﺕ ﮐﺮﯾﻤﮧ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺎﻓﻈﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﮕﮧ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻧھﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﮑﺮ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﺍﺝ ﻣﯿﮟ بسا لے ﺗﺎﮐﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﯽ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺍﻭﺭ سود مند ﺗﺠﺎﺭﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻗﺪﻡ ﺑﮍﮬﺎ ﺳﮑﮯ .

قرآن کا سمجھ کر پڑھنے والا اس کے فرمودات اور باریک بینیوں اور ﻧﮑﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﺎﺧﺒﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ، ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺍﯾﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﺟﻮ ﺍﺳﮯ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﻔﺲ ﺧﻮش ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺼﺎﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﺼﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ . ﻗﺮﺁﻥ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﭘﺮ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻗﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍس ﮑﮯ ﻋﻠﻮﻡ ﻭ ﻣﻌﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ غور و ﻓﮑﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻋﻠﻢ ﻭ ﺁﮔﺎﮨﯽ ﮐﯽ ﻟﺬﺕ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ کو تازگی ملتی ﮨﮯ . یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ کرنا گویا ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﻭ ﺗﺮﻭﯾﺞ ﺍﻭﺭ اس کی تعلیمات کو عام کرنا ہے . ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺐ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﺮلے ﺗﻮ ﺍﺱ کی ﺑﯿﻮﯼ ﺑﭽﮯ ﺑﮭﯽ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﺮنے لگتے ﮨﯿﮟ . ﺟﺐ ﺻﺒﺢ ﻭ ﺷﺎﻡ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺗﻼﻭﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺳﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺑﮍﮬﮯ ﮔﯽ ﺍﺱ ﻟئے ﮐﮧ ﺟﺐ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﮐﻮنہ ﮐﻮنہ ﺳﮯ ﺗﻼﻭﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺳﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ سرور ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ .

اگر قرآن کے بارے میں تاریخی اوراق پلٹے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﺯﺍﺩﯼ اور انسانوں کو مساوات ﮐﺎ ﭘﮩﻼ ﺳﺒﻖ ﺍﻭﺭ درس ﻗﺮﺍﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ہی ﺩﯾﺎ یے . ﻗﺮﺍﻥ ﮐﺮﯾﻢ نے دنیا ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺍﻧﻘﻼﺏ برپا کیا ﺟﺲ ﺳﮯ ﺑﻨﯽ ﻧﻮﻉ بشر ﮐﻮ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﮯ ﺗﺼﻮﺭﺍﺕ ملے . مرد و زن کو صحیح معاشرہ اور بہترین حقوق و زندگی ملی . ﻗﺮﺍﻥ ﻣﺴﺎﻭﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎ ﺭﻓﯿﻖ و ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ، ﺗﺎﮐﮧ ﻣﻌﺎﺷﺮہ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﺤﮑﺎﻡ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ . ﺍﯾﮏ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﻋﻮﺭﺕ ، ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ تو ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﻭﯼ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻗﺮﺍﻥِ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺑﮍﺍ ﺍنعام ﮨﮯ . ﯾﮧ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﯾﮧ ﺍﺣﮑﺎﻣﺎﺕ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﮯ اس وقت ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮہ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﻘﻮﻕ نہ ﺗﮭﮯ ، تو ﻗﺮﺁﻥ ﻧﮯ ﺫﮨﻨﯽ ﺍﺭﺗﻘﺎﺀ کے ﻋﻤﻞ ﮐﻮ ﺗﯿﺰ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺟﻼ ﺑﺨﺸﯽ جس سے ﺗﻌﻠﯿﻢ ﯾﺎﻓﺘﮧ مرد و ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﻣﺴﺎﻭﯼ ﺣﻘﻮﻕ کی ﺍﮨﻤﯿﺖ ﮐﺎ بحسن و خوبی ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ لگا سکتے ہیں .

ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ اور ذکر الہی سمجھ کر کی ﺟﺎتی ﮨﻮ تو ﺍﺱ میں ﺑﺮﮐﺘﻮﮞ کا ﺍﺿﺎﻓﮧ اور ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﻧﺰﻭﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ، ﺷﯿﺎﻃﯿﻦ ﺍﺱ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮔﮭﺮ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﻭﺷﻦ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺘﺎﺭﮮ ﺍﮨﻞ ﺯﻣﯿﻦ ﮐو . ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﺍﻭﺭ ﺫﮐﺮ الہی ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ تو ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﮐﺖ ﮐﻢ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ اور ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺍﺳﮯ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﺎﻃﯿﻦ ﺑﺲ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ .

قــرآن کا مطالبہ

قرآن کا مطالبہ یہ ہے کہ اس کے معنی و مقصود کو سمجھے بغیر صرف اس کو ثواب کی خاطر پڑھ لینا بہت کم پر قناعت کر لینا ہے . اصل مقصد تو عمل ہے اور عمل کی نوبت سمجھنے کے بعد آیا کرتی ہے . تمام مسلمان یہ جانتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لئے آنے والا ایک عظیم معجزہ ہے . قرآن کریم کا سب سے بڑا اعجاز انسانوں کی اصلاح اور انھیں اللہ تعالیٰ کی معرفت سے روشناس کرانا ہے اور انھیں اس کی عبادت پر آمادہ کرتے ہوئے زندگی کے تمام امور و حالات میں اس کا تابع و فرمانبردار بنانا ہے . دراصل قرآنی تبدیلی کا آغاز دل میں قرآنی نور کے داخل ہونے سے ہوتا ہے . یہ نور دل میں گناہوں ، غفلتوں اور خواہش کی پیروی سے جنم لینے والی تاریکی کو دور کرتا ہے اور اس میں دھیرے دھیرے نور کو بڑھاتا چلا جاتا ہے . قرآن سمجھنے سے صاحبِ قرآن ایک نئی زندگی سے متعارف ہو جاتا ہے . ارشادِ الٰہی ہے . ” أو من کان میتا فأحیینه و جعلنا له نورًا یمشیٰ به فی الناس کمن مثله فی الظلمٰت لیس بخارج منھا “.

معلوم ہوا کہ قرآن ایک روح ہے جو دل میں جا کر اسے زندہ کر دیتی ہے . ہر وہ شخص جو قرآن کریم کا کتابِ ہدایت و شفا کے طور پر خیر مقدم کرتا ہے اور قرآن کے ساتھ اس کا لگاؤ حقیقی ہوتا ہے تو وہ اس کی شخصیت میں انقلاب پیدا کر دیتا ہے اور اسے ایک نئے سانچہ میں ڈھال دیتا ہے . قرآنی تأثير کا نمونہ ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو اسلام سے پہلے جاہلیت کی انتہا پر تھے مگر جب انھوں نے قرآن کو اپنے سینوں میں بسایا تو ایسے معزز بن گئے کہ انسانیت آج تک ان پر فخر کرتی ہے . اس کتابِ عظیم میں انسانی زندگیوں میں انقلاب برپا کرنے کی قوت و تاثیر اور استعداد کس قدر ہے ؟ اس کا اندازہ بھلا کون کر سکتا ہے ، کون یہ سوچ سکتا ہے کہ ایک قوم جو صحرا میں رہتی ہو ، غریب ہو ، ننگے پاؤں ہو ، لباس کا اہتمام نہ ہو ، علم و دانش سے تہی ہو ، اپنے زمانہ کی سوپر پاور قوم میں بھی اس کا شمار نہ ہوتا ہو ، تو قرآن اس کی تشکیل جدید کرے اور ایک قلیل عرصہ میں اسے زمین کی پستی سے اٹھا کر آسمان کی بلندی تک پہنچا دے . یہ تبھی ممکن ہوا جب وہ اپنے آپ کو قرآن کے سانچہ میں ڈھالنے کے لئے آمادہ ہو گئے . جس کی طرف خود قرآن نے بھی اشارہ کیا ہے . ” إن الله لا یُغیّر ما بقومِ حتیٰ یُغیِّروا ما بأنفسهم “.

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی . چند ہی سالوں کے بعد اس صحرا کے قلب سے ایک نئی قوت ابھری جس نے روم و فارس کی عظیم و قدیم سلطنتوں کو مٹا کر رکھ دیا اور عزت و ذلت کے پیمانے ہی بدل دئے .

آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن پر عمل کرنے میں انسانوں کے لئے ایک نمونہ اور ترجمان تھے . حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بجا فرمایا تھا ” کان خلقه القرآن ” قرآن آپ کا خُلق و کردار تھا ۔ آپ کی سیرت ، افعال و اقوال سب قرآن کی عملی شکل تھی . جب قرآن آپ پر اترتا تھا تو سب سے پہلے آپ ہی اس پر عمل کرتے تھے اور آپ کا یہ عمل بطیبِ خاطر ہوتا تھا . قرآن کی محبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قلبِ مقدس میں پیوست تھی اور اس کی اتباع آپ کی فکر کا مرکز تھا . آپ قرآنی احکام کی تعمیل کے لئے بے تاب رہتے تھے . آپ نے اپنی پوری زندگی کو دعوت کے لئے وقف کر دیا تھا . نہ اکتاتے اور نہ ہی تھکتے . قرآن نے جب آپ کو پریشان حالوں کی مدد کا حکم دیا تو آپ نے قرض لے لے کر حاجت مندوں کی مدد کی . آپ فقر و فاقہ کا اندیشہ نہ کرتے تھے . لہذا ہمیں یہ بات جان لینی چاہئے کہ قرآن کی حقیقی قدر و قیمت اس کے معانی میں پوشیدہ ہے .

ضرورت اس حقیقت کو سمجھنے کی ہے کہ قرآن اپنے قاری کے عقل کی تشکیل نو کرکے ان کے قلوب میں نئی روح پھونک دیتا ہے اور ان کے نفس کی ایسی تربیت کر دیتا ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت نصیب ہوتی ہے . قرآن کریم کے ذریعہ ہونے والی یہ تبدیلی صرف اسی صورت میں ہوتی ہے جب اس کا مطالعہ تدبر کے ساتھ کیا جائے اور ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کیا جائے ۔ قرآن کے الفاظ کو محض زبان سے پڑھ لینے سے نہ تبدیلی آتی ہے اور نہ ہی اس کے حقیقی فوائد و ثمرات حاصل ہوتے ہیں . اگر ہم اپنے اندر حقیقی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اس کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا اور صرف تلاوت پر ہی اکتفاء کرنے سے پرہیز کرنا ہو گا .

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو قرآن کی تلاوت تدبر کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے .آمین .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here