شیرور کی ایک عظیم و یاد گار شخصیت مرحوم الحاج ماسٹر شمس الدین صاحب اپنی حیات و خدمات کے آئینہ میں

    0
    1258

    رشحات قلم : مولانا محمد زبیر ندوی ، مدرّس مدرسہ مفتاح العلوم شیرور

    محترم جناب مرحوم الحاج ماسٹر شمس الدین صاحب بڈو ، صدر مدرسہ مفتاح العلوم شیرور كا سانحۂ وفات مؤرخہ 29/مئی 2021 ء مطابق 17/شوال المکرم 1442 ھ بروز سنیچر پیش آیا . آپ کی وفات جماعت المسلمین جمعہ مسجد عبد اللہ طلائی اور مدرسہ مفتاح العلوم شیرور کے ممبران کے لئے بحیثیت عمومی اور ان کے عہدیداران کے لئے بحیثیت خصوصی ایک بہت بڑے نقصان اور خسارہ کی بات تھی ، ان کی وفات سے جہاں ان کے اہل خانہ مغموم ومحزون اور ملول و غمگین تھے ، وہیں ان کے پسماندگان اور بہت سارے اہلیان شیرور بھی اپنے اپنے رنج والم میں تھے ، اور نہایت ہی افسوس کے ساتھ ” إنا لله وانا إليه راجعون کی صدائیں بلند کرتے ہوئے اپنے زبان حال سے یوں گویا تھے کہ ” باغ تیرے دم سے گویا طبلۂ عطار تھا “.

    پیدائش سے تدریسی زندگی تک

    آپ کی شخصیت اہلیان شیرور کے لئے محتاج تعارف نہیں تھی . آپ سے ہر کوئی واقف تھا کیونکہ آپ کی شخصیت نہایت ہی پاک باز ، خوش اخلاق ، منکسر المزاج اور ہر دل عزیز تھی .

    آپ کی پیدائش ماہ مئی سنہ 1949 ء میں بڈو نامی خاندان کے ایک پاکیزہ گھرانہ میں ہوئی .

    آپ نے اپنے دور کے مروجہ طریقہ کے مطابق اپنی ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ کے ہائر پرائمری اسکول سے شروع کی اور ساتویں جماعت کا امتحان سنہ 1967ء میں پاس کیا . اور اعلیٰ تعلیم کے لئے اپنا داخلہ ہائی اسکول شیرور میں لیا اور میٹرک کے فائنل امتحانات میں کامیابی حاصل کر کے وہیں پر PUC کی تعلیم بھی حاصل کی .

    بعد ازاں بی ایڈ کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے ایک سال بینگلور چلے گئے اور وہاں کی DRLC کی ماتحتی میں ٹیچنگ کی ڈگری حاصل کی جس کے نتیجہ میں انھیں سنہ 1971ء میں DRLC کے توسط سے گورنمنٹ ہوڈے اسکول میں تدریسی خدمات کا موقعہ ملا . کچھ سال آپ نے وہیں پر اپنی تدریسی خدمات انجام دیں .

    اس کے بعد آپ بیندور اسکول میں اپنی تدریسی خدمات انجام دینے لگے . آپ یومیہ شیرور سے بیندور پیادہ آیا جایا کرتے تھے . آپ کے ساتھی محترم جناب ماسٹر محمد غوث صاحب کافسی بھی تھے . آپ دونوں مل کر صبح اسکول کے لئے روانہ ہوتے اور شام کو ساتھ ہی واپس لوٹتے تھے . کچھ ہی سالوں بعد آپ کی بہترین تدریسی خدمات کو دیکھتے ہوئے آپ کا تبادلہ ہندوستان اسکول مسلم محلہ گوبر کیری شیرور میں کیا گیا . جہاں آپ نے بحسن وخوبی اپنی تدریسی خدمات انجام دیں .

    پھر آپ کی محنت و لگن اور بہترین تدریسی نتائج کو دیکھتے ہوئے آپ کا تبادلہ آپ کے آبائی وطن شیرور کے ہائر پرائمری اسکول میں کیا گیا.جہاں آپ کو اکیس (21) سالہ بہترین تدریسی خدمات انجام دینے کا موقعہ ملا .

    پھر کچھ سالوں بعد آپ کا پروموشن کیسر کوڈی اسکول میں ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے ہوا ، جہاں آپ نے کچھ ہی سال اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گذارے اور سنہ 2007 ء میں اپنی تدریسی خدمات سے ریٹائرڈ ہوئے .

    اسی طرح آپ نے تقریبا 36/سالہ تدریسی خدمات انجام دیتے ہوئے اپنی زندگی کا ایک تہائی حصہ تعلیمی میدان میں صرف کیا .

    دوران تدریس آپ بچوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے . آپ نے جہاں کہیں بھی تدریسی خدمات انجام دیں وہاں پر اپنا ایک خاص اثر ورسوخ قائم کیا .

    آپ اپنے کریمانہ اخلاق کی وجہ سے ہر ایک کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آتے اور بچوں اور طلباء سے والہانہ پیار و محبت کرتے تھے . امیر و غریب اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر یکساں طور پر سبھوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے . بعض غیر مستطیع بچوں اور بچیوں کو اپنی جیب سے کتابوں کی خریداری اور جیب خرچی کے لئے چھوٹی موٹی رقم بھی دیا کرتے . بچوں کی تعلیم پر بہت محنت کرتے اور ان کی لکھائی پر بہت زور دیتے . مذاکرہ ، مطالعہ اور درجہ کی پابندی پر بچوں کو ابھارتے اور اس کی ترغیب دیتے .

    آپ وقت کے بڑے پابند تھے . لہذا درجات کی حاضری اپنے اوپر لازمی سمجھتے ، خواہ سردی ہو یا گرمی ، بہار ہو یا برسات ، ہر حال میں اپنی غیر حاضری کو بے شمار بچوں کا نقصان سمجھتے تھے .

    آپ کی ہائر پرائمری اسکول کی تدریسی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا . آپ ہر میدان میں اپنی خدمات کے دوران اس کے اصول و ضوابط کے بڑے پابند ہوتے تھے . ہر کام کی انجام دہی سے قبل رائے مشوروں کو ترجیح دیتے . لہذا آپ ایک بہترین مشیر اور اسکول میں ایک تجربہ کار ، ماہر و باصلاحیت ماسٹر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے .

    تدریس کے دوران آپ ہر ایک سے محبت کے ساتھ پیش آتے اور اپنے ساتھ کام کرنے والے لوگوں سے نفرت و عداوت کو پسند نہیں کرتے آپ اپنی رفتار و گفتار میں سنجیدگی سادگی اور پست آواز کو پسند فرماتے اور لڑائی جھگڑے اور اونچی آواز سے بات کرنے کو ناپسند فرماتے . اسی طرح چلتے وقت بھی اپنی نظریں جھکائی رکھتے . یہی وجہ تھی کہ زندگی بھر آپ نے اپنے آپ کو تدریس کے دوران ایک مثالی استاد کی حیثیت سے پیش کیا ہے . ہزاروں طلبہ و طالبات آپ سے مستفید ہو چکے ہیں . ہر مہمان آپ کی تعریف کرتا اور آپ سے مل کر اچھا تاثر لیتا . افسوس کہ آج ایسا علمی چراغ گل ہو گیا .ت

    تدریسی دور کے بعد آپ کی سماجی خدمات

    جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عام طور پر لوگ اپنی ذمہ داریوں سے سبگدوش ہونے کے بعد اسی فکر میں ہوتے ہیں کہ کیسے چین و سکون کی زندگی بسر کی جائے اور اپنے اہل خانہ کے ہمراہ وقت بتایا جائے . لیکن موصوف اس سلسلہ میں اپنی ایک خاص فکر رکھتے تھے ، لہٰذا آپ نے اپنی تدریسی خدمات سے سبکدوشی کے بعد بھی اطمینان کی سانس نہیں لی ، اور نہ ہی اپنے آپ کو فارغ محسوس کرتے ہوئے گھر کی دہلیز کو لازم پکڑنا مناسب سمجھا ، بلکہ قوم و ملت کی خدمت کو اپنا وطیرہ بنایا اور موت تک اسی فکر پر قائم و دائم رہے جس کا اندازہ NWA Shiroor کے چھٹی AGM کے موقعہ پر قوم کے سامنے ان کے تعلیمی میدان میں طلباء کی ترقی کے لئے درد مندانہ آخری خطاب سے لگایا جا سکتا ہے .

    قارئین کرام یہ اس وقت کی بات ہے جب دو ناخدا جماعتیں ( جماعت المسلمین جامع مسجد الہاشمی ناخدا محلہ شیرور اور جماعت المسلمین جمعہ مسجد عبد اللہ طلائی شیرور ) ایک ہی تھیں ، تو موصوف اسی وقت سے ہی اپنے آپ کو ملی خدمات کے لیے وقف کر چکے تھے ، چونکہ آپ کی سوچ بچپن ہی سے اس طرح کے خیالات سے معمور تھی ، لہذا آپ نوجوانوں کے ہمراہ قومی خدمات انجام دینے لگے . آپ کو ہمیشہ مساجد کے نظام کو بہتر بنانے کی فکر دامن گیر رہتی . جب کبھی وقتیہ مسجد ، مسجد نورانی شیرور میں پانی کی قلت ہوتی تو آپ نوجوانوں کو جمع کرتے اور خود بھی ان کے ہمراہ شریک ہو کر پانی کا انتظام کرتے اور نوجوانوں کو جمع کرکے انھیں ترغیب دیتے اور مسجد سے اپنے روابط قائم رکھنے پر زور دیتے . اسی طرح آپ نے شیرور کے قدیم ادارہ مدرسہ فرقانیہ ناخدا محلہ شیرور میں بھی ایک ذمہ دار کی حیثیت سے اپنی غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں ، آپ ہمیشہ نوجوانوں کی حوصلہ افزاہی فرماتے اور انھیں اپنے مفید مشوروں سے مستفید کرتے ، اسی طرح سالہا سال گزرتے گئے حتی کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ شیرور کی تاریخ نے ایک نئی کروٹ لی جس کے نتیجہ میں اتفاق و اتحاد کی دیواریں کمزور پڑنے لگیں ، لیکن موصوف ان حالات میں بھی مایوسی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ اپنی قومی خدمات میں برابر سرگرم عمل رہے ، حالانکہ کمیٹی میں اس وقت آپ ایک عام کی حیثیت سے تھے ، لیکن آپ اپنی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی نبھانے کی کوشش کرتے اور کبھی بھی یہ نہ کہتے کہ ” مجھ سے یہ کام نہیں ہوگا “، بلکہ آپ مضبوط حوصلہ و ارادہ کے مالک تھے .

    مجھے وہ وقت خوب یاد ہے کہ جب ہمارے یہاں دو جماعتیں ہوئیں تو اس وقت سب سے پہلے محترم جناب ماسٹر عبد اللہ صاحب مرحوم کے باغ میں ایک چھوٹی سی مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی جو عبادت گاہ کے نام سے موسوم تھی . ابتداءاً اس میں نماز کے تعلق سے بہت سارے مسائل درپیش تھے ، حتی کہ پانی اور وضو خانہ کی سہولیات بھی مہیا نہ تھیں . ایسے نازک حالات میں بھی مرحوم نے چند نوجوانوں اور اپنے ہم عمر احباب و ذمہ داروں سمیت اس کام کے لئے کمر کس لی . اور پانی کی قلت کے ایام میں ہائی اسکول شیرور کے قرب میں پائے جانے والے ایک قدیم بورنگ کا پانی بذریعہ سائیکل ڈولوں میں بھر کر مسجد تک لانے کی کوششوں میں پیش پیش رہے اور لوگوں کو مسجد کی خدمت کی ترغیب دیتے رہے .

    جب آپ کو منتشر نوجوانوں کو متحدہ پلیٹ فارم جمع کرنے کی فکر دامن گیر ہوئی تو آپ نے جماعت المسلمین جمعہ مسجد عبد اللہ طلائی شیرور کی زیر نگرانی ایک کمیٹی ” ناخدا یوتھ اسوسی ایشن کے نام سے تشکیل دی . جسے نیاس کمیٹی کے نام سے جانا جاتا ہے ، جو پچھلے پچیس سالوں سے اپنی خدمات میں سرگرم عمل ہے . اس میں بہت سے نوجوانوں نے آپ اور دیگر دوسرے ذمہ داروں کے لئے اپنا بھرپور تعاون پیش کیا اور ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں نے بھی جو بیرون ممالک میں کسب معاش کے لئے قیام پذیر تھے . جستہ جستہ اللہ کی مدد اور عوام کے تعاون سے ایک چھوٹی سی عارضی مسجد مرحوم عبد القادر صاحب رحمان کے کمپانؤنڈ کے قرب میں تعمیر کی گئی ، جس کی دیواریں زیادہ اونچی نہ تھیں اور یہ کچی دیواروں اور کھپریل سے تعمیر کی گئی تھی . یہی وہ مسجد ہے جہاں سے باقاعدہ منظم طریقہ سے شبینہ و صباحی مکتب کے بچوں کی تعلیم کا آغاز ہوا . رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ نے ترقی دی اور اب بفضل تعالیٰ یہی چھپر والی مسجد عوام الناس کی مدد اور اہل بھٹکل و دیگر مخیر احباب اور بیرون ملک کے خصوصی تعاون سے دبئی کی ایک شخصیت کی طرف منسوب کرتے ہوئے ایک عالیشان مسجد ” عبد اللہ طلائی ” کے نام سے تعمیر کی گئی .

    جس وقت یہ مسجد تعمیر کی جا رہی تھی اس سے قبل ہی شبینہ مکتب کی تعلیم محترم جناب مرحوم عبد القادر صاحب رحمان کے قدیم گھر کے تین پرانے کمروں میں دی جا رہی تھی . چونکہ اس وقت حالات بالکل ناساز گار تھے ، لہٰذا دینی تعلیم کے انتظام کے لئے کوئی زمین جماعت ہذا کے پاس نہیں تھی اور نہ ہی فی الفور اتنی خطیر رقم جمع کی جا سکتی تھی ، لہذا ان کے اسی مکان میں دینی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا . پھر جب جدید جمعہ مسجد ” عبد اللہ طلائی شیرور ” کے نام سے مکمل تیار ہوئی تو مرحوم کو سنہ 2007 ء میں جماعت ہذا کی کمیٹی میں رکن کی حیثیت سے شامل کیا گیا ، تو وہیں سے آپ نے ایک ذمہ دار کی حیثیت سے اپنی خدمات دینا شروع کیں .

    کچھ ہی سالوں بعد ذمہ داروں کو مدرسہ کے تعمیر کی فکر لاحق ہوئی تو مسجد کے صحن میں خالی وسیع جگہ پر مدرسہ کی بنیاد کا فیصلہ کیا گیا اور کچھ سالوں بعد مدرسہ کی سنگ بنیاد بھی رکھی گئی اور اس کے تعمیراتی کام کی تکمیل کے بعد کچھ کلاسس قائم کئے گئے تو اس کے لئے عمارت ناکافی ہونے لگی تو کچھ کلاسس مسجد کے بالائی حصے پر جاری کئے گئے . ایک وقت وہ بھی آیا کہ آپ کی فکری بلندی وخدمات اور محنت و لگن کو دیکھتے ہوئے عوام الناس نے آپ کو مدرسہ کی کمیٹی میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا . اس طرح آپ بیک وقت مدرسہ اور مسجد دونوں کے ذمہ دار بن گئے . رفتہ رفتہ طلبہ و طالبات کی تعداد بڑھنے لگی تو لوگوں نے آپ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے انھیں مدرسہ کی کمیٹی کا صدر منتخب کیا تو آپ نے بھی بحسن وخوبی اپنی ذمہ داریاں نبھانا شروع کر دیں جس کے نتیجہ میں تو باقی ماندہ تعمیراتی کاموں کی تکمیل کا سلسلہ تیزی سے آگے بڑھنے لگا ، کیوں کہ ہر کوئی آپ کی سرگرمیوں سے متعارف تھا.

    آپ کا اثر ورسوخ لوگوں میں بہت زیادہ تھا ، لہذا آپ کو ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور آپ کے ایک حکم پر لوگ کثیر تعداد میں جمع ہو جاتے اور یہ اثر ورسوخ محض اہلیان شیرور میں ہی نہیں تھا ، بلکہ غیروں ، بڑے بڑے سرکاری و سیاسی ذمہ داروں ، شہر بھٹکل کی عظیم ہستیوں اور بیرورن ممالک میں مقیم شخصیات کے ساتھ بھی تھا . لہٰذا آپ نے مدرسہ کی مزید تعمیراتی ترقی کے لئے اپنی پہچان کے سبھی احباب سے مدد کی اپیل کی . الحمدللہ سبھوں نے آپ کی آواز پر لبیک کہا .جس کے نتیجہ میں مدرسہ کی پہلی منزلہ عمارت تعمیر ہوگئی .چونکہ اس وقت مدرسہ ہذا میں عالمیت کے مکمل درجات نہ تھے . لہذا لڑکیاں درجہ دوم عربی مکمل کر کے عالیہ سوم و چہارم کے لئے دوسرے مدارس میں جاکر اپنا عالمیت کا کورس مکمل کرتی تھیں . البتہ تکمیل حفظ کا مکمل نظام شروع ہی سے قائم تھا . لہٰذا اساتذہ و معلمات کی طرف سے بارہا یہ اپیل درج کی جاتی رہی کہ مدرسہ ہذا میں مکمل عالمیت کی تعلیم کا سلسلہ جاری کیا جائے اور درجات بڑھائے جائیں . تاکہ ہماری وہ طالبات جن کی تعلیم بنیادی تعلیم یہیں پر ہو رہی تھی وہ عالمیت کی مکمل تعلیم بھی یہیں پر مکمل کر سکیں اور مدرسہ کو بھی اس سلسلہ میں باقاعدہ اپنا الگ ریکارڈ قائم کرنے میں سہولت ہو ، کیونکہ فراغت کے آخری سالوں کے وقت طالبات مدرسہ سے باہر جاکر عالمیت کی تعلیم مکمل کرتیں.جس وجہ سے مدرسہ ہذا کا کوئی ریکارڈ قائم نہ تھا اور نہ مدرسہ یذا عروج پر تھا . جس کی فکر مدرسہ ہذا کی کمیٹی کو ہوئی تو صدر مرحوم نے اپنے قریبی لوگوں اور کمیٹی کو تعمیراتی کام کی تکمیل کے لیے بیرون ممالک کا دورہ کرنے کا مشورہ دیا .

    اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس وقت KKMA کمیٹی کے صدر محترم جناب بشیر ابن مرحوم عبد الرزاق صاحب تھے ، اور اتفاقاً ان کے والد محترم جناب عبدالرزاق صاحب کا بھی انتقال ہو چکا تھا . لہذا ان کے فرزند محترم جناب بشیر صاحب صدقۂ جاریہ کے طور پر ایک چھوٹا سا مدرسہ تعمیر کرنے کے خواہاں تھے . اتفاق سے موصوف نے محترم جناب رحمت اللہ صاحب بڑجی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا . تو آپ نے اس کا تذکرہ مرحوم شمس الدین صاحب سے کیا تو آپ نے موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے مدرسہ کے حالات ان کے سامنے رکھے تو محترم جناب بشیر صاحب نے اپنے گھر والوں کے ساتھ مدرسہ ہذا کا بذات خود معائنہ کیا . اور ان کی خواتین نے بھی ہر درجہ میں جاکر اپنی آنکھوں سے مدرسہ کے حالات کا جائزہ لیا اور درجات کے مطابق کلاس روموں کی کمی کو محسوس کیا اور .یہاں کے دینی ماحول سے خوش ہو کر انھوں نے اپنے والدِ محترم کے نام سے تین بڑے بڑے کلاس روم تعمیر کرنے کی یقین دہانی کرائی اور ساتھ ہی ساتھ اس کے تعمیراتی کام کا آغاز بھی کیا ، پھر کچھ ماہ بعد افتتاح کے لئے اپنے اہل خانہ ساتھ تشریف لائے اور اپنی والدہ کے ہاتھوں اس کا افتتاح کرایا . اسی مناسبت سے ایک مختصر سی نشست بھی قائم کی گئی تھی جس میں شہر کے عمائدین ، مختلف کمیٹیوں کے صدور اور مختلف مدارس کے مہتمم صاحبانِ و علماء کرام کو مدعو کیا گیا تھا. اور اس کار خیر میں تعاون کرنے والے سبھی حضرات کا شکریہ ادا کیا گیا.

    واضح رہے کہ اس سلسلہ کی جملہ کارکردگیوں میں مرحوم شمس الدین صاحب کا ایک اہم اور کلیدی رول رہا ہے .

    مجھے وہ وقت بخوبی یاد ہے کہ سنہ 2012 ء میں جب میرا تقرر مدرسہ ہذا میں تدریسی خدمت کی غرض سے ہوا تو اس وقت مدرسہ کے صدر مرحوم شمس الدین صاحب تھے.اور اس وقت طلبہ و طالبات کی جملہ تعداد تیس (30) کے قریب تھی . پھر رفتہ رفتہ یہ تعداد بڑھتی گئی اور الحمد للہ اب یہ تعداد سنہ 2021 ء میں ایک سو پندرہ (115) تک پہنچ چکی ہے . جس کی وجہ سے مدرسہ کو ایک بڑے ہال کی ضرورت محسوس ہونے لگی تو اساتذہ اور طالبات نے اس ضرورت کو مدرسہ کی کمیٹی کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ مدرسہ کے لئے ایک بڑے ہال کی اشد ضرورت ہے . تاکہ طالبات بآسانی پروگرام منعقد کر سکیں اور امتحانات دے سکیں.جس پر آپ اور کمیٹی فکر مند تھی . اتفاق سے اس سلسلہ مدرسہ کے سابق استاد و سابق خطیب محترم جناب مولانا حافظ جاوید صاحب ندوی نے بھی بذریعہ کال مرحوم اور موجودہ کمیٹی سے بات کی کیونکہ موصوف بھی مدرسہ کے بالائی حصہ کے بابت فکر مند تھے .

    اب الحمد للہ مرحوم شمس الدین صاحب ، مدرسہ کی کمیٹی اور بیرون ممالک کے تعاون کے نتیجہ میں مدرسہ کا بالائی ہال اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہے اور اس طرح مدرسہ کی.جملہ عمارت اپنے کمال کو پہنچ چکی ہے .

    اس موقعہ پر میں آپ کے علم میں اس بات کا اضافہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ابتداءاً مدرسہ ہذا میں عالمیت کے مکمل کلاسس نہ تھے ، جس کے سبب طالبات آدھی تعلیم یہاں حاصل کر کے عالمیت کے لئے دیگر مدارس کا رخ کرتی تھیں ، مگر پچھلے گیارہ (11) سالوں سے مدرسہ ہذا سے ہی فراغت حاصل کر رہی ہیں . الحمدللہ عالمات کی تعداد اب تک پچاس (50) سے تجاوز کر چکی ہے . اسی طرح حافظات کی تعداد بھی پچاس (50) کے قریب پہونچ چکی ہے . اسی طرح مرحوم شمس الدین صاحب کی سرپرستی میں فارغ التحصیل عالمات و حافطات کی ایک جمعیت بھی بنات مفتاح کے نام سے قائم ہے جن سے الحمد للہ مدرسہ کو بہت فائدہ پہنچ رہا ہے .

    اس وقت ہم جس مہلک وبا کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے مدارس پر قفل کے حالات سے گذر رہے ہیں ، یہی کشیدہ حالات مرحوم کی حیات میں بھی اپنی انتہا کو پہونچ چکے تھے ، چاروں طرف سے مصائب گھیرے ہوئے تھے . لیکن مرحوم ان حالات کا بھرپور مقابلہ کرتے رہے اور ہمت سے کام لیتے رہے اور مدرسہ کی فکر میں بار بار مدرسہ آکر خبر لیتے رہتے . آپ احتیاطی تدابیر کی ترغیب دیتے . حکومتی قوانین کی پاسداری کی تلقین کرتے اور آس پاس کے مدارس و اسکولوں کے حالات کا بھی جائزہ لیتے رہتے . نتائج امتحان ، جلسۂ سالانہ اور وداعی تقریب میں اپنی موجودگی کو اہمیت دیتے اور بچوں اور بچیوں کو علمی باتوں اور اعلی نصائح سے نوازتے .

    آپ کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی تھی کہ جب بھی کمیٹی کی کوئی میٹنگ بلائی جاتی تو آپ قبل از وقت تشریف لاتے اور اراکین احباب کے منتظر رہتے . ایسی میٹینگیں معدودے چند ہی ہوں گی جن میں آپ کی شرکت نہ کی ہو . آپ اصول و ضوابط کے بڑے پابند اور ہر ایک کی عزت و تکریم کا لحاظ رکھنے والے تھے . آپ آپ ایک بہترین تجربہ کار ذمہ دار کی حیثیت سے جانے جاتے تھے . جب بھی مدرسہ کی وصولی کا وقت آتا تو سب کو جمع کرتے اور قرب و جوار کے علاقوں کمٹا ، ونلی ، ہوناور ، منکی مرڈیشور ، ٹیگن گنڈی ، شیرور ، بیندور اور گنگولی وغیرہ کے لئے ہر سال ممبران اور دیگر لوگوں کی ترتیب بناتے اور خود بھی نکلتے، کیونکہ آپ مدرسہ کے تعلق سے بہت زیادہ فکرمند رہتے تھے .

    آپ بیک وقت کئی جمعیتوں کے ذمہ دار تھے . آپ ہائر پرائمری اسکول کے بھی ذمہ دار تھے.آپ سے اسکول کو ہر ناحیہ سے استفادہ حاصل رہا ہے . جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ، اسی طرح آپ مدرسہ مفتاح العلوم میں بھی کئی سالوں تک صدارت کے منصب پر فائز رہے، آپ جماعت المسلمین جمعہ مسجد عبد اللہ طلائی شیرور میں بھی ایک طویل مدت تک بحیثیت ذمہ دار اپنی خدمات انجام دیتے رہے تھے اور 11/اگست 1997 ء سے لیکر سنہ 2000 ء تک بحیثیت سکریٹری اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور اس کے بعد سنہ 2006 ء تک بحیثیت رکن اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور وفات تک جماعت المسلمین عبداللہ طلائی میں سرپرست کی حیثیت سے مشہور و معروف تھے . اسی طرح شیرور کی کل چھ جماعتوں کی متحدہ کمیٹی ” ناخدا ویلفئر اسوسی ایشن شیرور ” میں بھی صدر کی حیثیت سے اپنی بے لوث خدمات انجام دیتے رہے ، آپ اپنے عملہ کے ساتھ نکلتے اور محتاجوں کے گھروں تک جاکر راشن تقسیم کرتے نیز SSLC اور PUC کے طلبہ و طالبات کی تعلیمی ترقی کے لئے ہر وقت سرگرم عمل ریتے تھے . آپ کی شرکت سے NWA کمیٹی شیرور کو بہت ہی زیادہ فیض پہنچا ہے . آپ کو شیرور کے اکثر اسکولوں میں یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے حسین موقعہ پر پرچم کشائی کے لیے مدعو کیا جاتا . اس کے علاوہ آپ دینی اصلاحی اور تربیتی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے . آپ غریبوں کے ہمدرد ، اصولوں کے پابند ، اجتماعیت کے ساتھ سبھوں کو لے کر چلنے والے اور صاحب الرائ تھے . آپ ہر طرح کے دینی و اصلاحی اور سیاسی پروگراموں میں شرکت کو پسند فرماتے . لوگوں کے مسائل کا قریب سے جائزہ لیتے اور ان کا مناسب حل نکالنے کی کوشش فرماتے . مشکل امور کو بھی بڑی نرمی اور آسانی سےحل کرتے تھے.الغرض آپ جہاں کہیں بھی بحیثیت ذمہ دار رہے وہاں حتی المقدور اپنی خدمات بحسن خوبی انجام دیتے رہے اور اہلیان شیرور اور ناخدا برادری کے لئے ایک مثالی نمونہ بن گئے . اللہ تعالیٰ آپ کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے . آمین .

    آپ کی زندگی کے کچھ عباداتی پہلو

    یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو بچپن میں نیک اور صالح ہو اور اس کی پرورش و تربیت بھی بہترین ماحول میں ہوئی ہو تو اکثر و بیشتر اس کی جوانی اور بڑھاپہ بھی نیک وصالح ہوا کرتا ہے . آپ جس طرح بچپن میں عبادات کے عادی تھے اسی طرح بڑھاپہ میں بھی اس کے پابند تھے . آپ صرف پانچ وقت کی نمازوں کے ہی عادی نہیں تھے بلکہ تکبیر اولی اور صف اول کا بھی اہتمام کرتے تھے . آپ صرف فرائض ہی پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ رواتب کا بھی اہتمام کرتے تھے . ساتھ ہی ساتھ تسبیح کی نماز اور ذکر و اذکار کے بھی پابند تھے . بالخصوص آپ فجر اور تہجد کا بڑا اہتمام کرتے تھے . آپ تلاوت قرآن کے ساتھ ساتھ کنڑا میں قرآن کا ترجمہ اور تفسیر بھی پڑھتے تھے اور بعض دفعہ اہم باتوں کو نوٹ بھی کر لیتے تھے . آپ کا معمول مغرب کی نماز کے لئے قبل از وقت مسجد پہونچنے اور عشاء کی نماز کے بعد سنتوں اور تلاوت سے فارغ ہو کر واپس لوٹنے کا تھا . آپ مسجد میں سب سے پہلے آتے اور اخیر میں جاتے تھے . جمعہ کے دن درود اور سورۂ کہف کا اہتمام کرتے تھے . یومیہ صبح و شام کے اذکار و سورتوں کا اہتمام کرتے . آپ تبلیغی جماعت کا خوب ساتھ دیتے ، ملاقاتیں کرواتے ، مسجد وار جماعت کا اہتمام کرتے اور جس کا نام لکھا جاتا اس کے گھر جاتے اور نماز کی تلقین کرتے تھے . اسی کی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑھاپہ میں بھی بالکل جوان فرد کی طرح حشاش بشاش رکھا تھا اور انھیں اپنی نوجوانی سے ہی خدمت خلق کا موقعہ نصیب فرمایا تھا، لہذا وفات تک آپ کی زندگی انہی اوصاف حمیدہ سے لبریز رہی . الحمدللہ! اللہ نے آپ کو حج جیسی عظیم سعادت سے بھی نوازا تھا اللہ ہمیں بھی یہ سعادت نصیب فرمائے . آمین .

    آپ کی اخلاقی زندگی کے کچھ نمایاں اوصاف

    آپ ہر ایک کا احترام و اکرام کرتے ، بالخصوص علماء کرام کی بہت عزت کرتے . سلام میں پہل کرتے اور خندہ پیشانی سے ملتے تھے . آپ “مَنْ صَمَتَ نَجَا ” کے مکمل آئینہ دار تھے . نرم مزاج ، خندہ دل ، ملنسار ، منکسر المزاج ، کم گو ، نیچی نگاہ والے اور وقت کے بڑے پابند تھے . بڑھاپہ میں بھی کرسی کا سہارہ لے کر نماز ادا کرتے تھے ، خواہ موسلا دھار بارش ہی کیوں نہ ہو ، ہر صورت میں آپ کی مسجد میں شرکت لازمی تھی . انہی اخلاق کریمہ کے کچھ اثرات ان کی اولاد پر بھی مرتب ہوئے ، لہذا آپ کے فرزند بھی خاموش المزاج اور خوش طبع انسان ہیں . آپ نے اپنے اہل خانہ کی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی نبھایا اور ان کی تعمیر حیات کی فکر کی .

    آپ اپنے اہل خانہ ، رشتہ داروں اور دوست و احباب سے بہت ہی پیار و محبت سے پیش آتے اور سبھوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتے . خوش نصیبی کی بات تو یہ ہے کہ اللہ نے آپ کو تین فرزندوں اور ایک دختر سے نوازا تھا. لیکن سبھی ازدواجی زندگی سے منسلک ہیں . اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی حیات میں ہی ان اہم مسئولیات سے سبکدوش ہونے کا موقعہ نصیب فرمایا جو بہت کم لوگوں کے نصیب میں آتا ہے

    وفات سے کچھ ایام قبل

    وفات سے کچھ ایام قبل آپ کی طبیعت میں کچھ ناسازی اور کمزوری تھی ، لہذا علاج و معالجہ کے لئے لائف کیر ہسپتال بھٹکل میں بھرتی کیا گیا اور اس کے ایک ہی دن بعد مینگلور KMC ہسپتال میں لے جایا گیا . وہاں پر آپ چار دن موت وحیات کی کشمکش میں رہے . اس دوران آپ بذریعۂ فون اپنے متعلقین ، دوست احباب اور رشتہ داروں سے بات چیت اور سلام و کلام کرتے رہے ، اگر طبیعت میں گرانی محسوس کرتے تو بات مختصر کرتے اور سلام کے جواب پر ہی اکتفا کرتے . لیکن ان نازک حالات میں بھی آپ کی زبان ذکر و اذکار سے تر رہتی . یہ آپ کی خوش نصیبی تھی کہ آپ کا آخری وقت بھی سابقہ زندگی کی طرح عبادت ہی میں گذرا ، اسی طرح تین دن گزرنے کے بعد چوتھے دن ان کے انتقال کی افسوس ناک خبر موصول ہوئی ، جسے سن کر آپ کے اہل خانہ ، دوست احباب ، رشتہ دار و ذمہ دار اور اہلیان شیرور اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر پر رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے ” إنا لله وإنا اليه راجعون ” کہنے پر مجبور ہوئے .

    آپ کی نعش بعد نماز مغرب ٹھیک رات پاؤنے سات (6:45pm) بجے گھر لائی گئی . نعش گھر پہونچنے سے قبل ہی آپ کے متعلقین اور دیگر لوگوں کا ایک ہجوم ان کے آخری دیدار کے لئے بے تاب تھا . لہذا آپ کو آپ ہی کے جدید گھر کے صحن میں غسل دیا گیا.اور ان کے اہل خانہ اور بہت سارے اہلیان شیرور کے آخری دیدار کے بعد قبرستان لے جایا گیا . آپ کی نماز جنازہ لاک ڈاؤن کے حالات کی مناسبت سے قبرستان میں ہی ادا کی گئی . رات ٹھنڈی تھی پھر بھی عوام کی بھیڑ قابل دید تھی . جس سے آپ کے محبین و متعلقین کی کثرت کا بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے .

    لوگوں نے آپ کو مغموم حالت میں تین مشت مٹی دی اور دعاؤں کے ساتھ قبرستان سے گویا یوں کہتے ہوئے رخصت ہوئے کہ

    تیرے احساں کا نسیمِ صُبح کو اقرار تھا
    باغ تیرے دم سے گویا طبلۂ عطّار تھا

    اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے ، ان کے درجات بلند فرمائے ، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور اہلیان شیرور کو ان کا نعم البدل نصيب فرمائے . آمین .

    اظہارخیال کریں

    Please enter your comment!
    Please enter your name here