والدین کی اطاعت و فرمانبرداری اور رشتوں کی اہمیت و فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں

0
3399

از : مولانا عبدالقادر بن اسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آباد ، تینگن گنڈی ، بھٹکل ، امام و خطیب جامع مسجد محمد عشیر علی سلیمان المزروعی ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارات .

ألحمد لله رب العالمين ، والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين ، وعلیٰ اٰله وصحبه ومن تبعهم أجمعين ، ولا عدوان إلا على الظالمين .

اللہ سبحانہ وتعالىٰ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کریم اور حدیث شریف میں رشتہ کو بڑی اہمیت دی ہے . رب ذوالجلال سورۃ النساء میں فرماتاہے ! ” اور تم اس اللہ سے ڈرو ، جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے ( اپنا حق ) مانگتے ہو ، اور رشتوں ( کو کاٹنے ) سے ( بھی ) ڈرو ” ( سورۃ النساء/1 ) دوسری ایک جگہ میں فرمایا ” اور تم اللہ کی عبادت کرو ، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹہراؤ ، اور والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ، اور قرابت والوں ، یتیموں ، مسکینوں ، پڑوسی رشتہ داروں ، اجنبی ہمسایوں ، اور پہلو میں رہنے والے ( یعنی سفری یا تجارتی ساتھی کے ساتھ ، ایک قول میں بیوی ) کے ساتھ ، اور مسافر کے ساتھ ، اور تمہارے قبضہ میں رہنے والے لونڈی غلاموں کے ساتھ ( بھی حسن سلوک سے پیش آؤ ) . ایک تیسری آیت کریمہ میں اللہ جل مجدہ نے فرمایا ! ” اور وہ لوگ کہ جن (روابط ، عَلاقوں ) کو جوڑے رکھنے کا اللہ نے انھیں حکم دیا ہے ، ان کو جوڑے رکھتے ہیں ” ( سورۃ الرعد/21 ) .

پہلی حدیث : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا کہ ( یہ صحابی جد بھز بن حکیم رضی اللہ عنہ تھے ) یارسول اللہ ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے ساتھ اچھی طرح سے رہنے والے لوگوں میں ( حسن سلوک کا ) سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں . اس نے پوچھا کہ پھر کون ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں . اس نے پھر پوچھا کہ پھر کون ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں . اس نے پھر پوچھا کہ پھر کون ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ( چوتھی مرتبہ ) فرمایا کہ پھر تمہارے باپ ۔ ( بخاری ، مسلم ) ایک نسخہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بعد فرمایا کہ پھر تم سے زیادہ قریب والا . ( اور ) پھر تم سے زیادہ قریب والا ۔ ( بخاری و مسلم )

دوسری حدیث : حضرت ابوعبدالرحمان عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کونسا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ” نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ” میں نے پوچھا کہ پھر کونسا ؟ فرمایا! کہ ” والدین کی فرمانبرداری ” ( بجا لانا ) . میں نے پوچھا کہ پھر کونسا ؟ فرمایا کہ ” اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا “. ( بخاری و مسلم )

والدین اگر غیر مسلم ہوں تب بھی ان سے رشتہ داری نبھانا ضروری ہے ۔

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ( ایک نسخہ میں قریش کے زمانہ میں آیا ہے ) میرے پاس میری ماں اس حالت میں آئیں کہ وہ مشرکہ تھیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فتویٰ پوچھا ، میں نے کہا کہ میری ماں میرے پاس ( کسی چیز کو پوچھنے کی ) رغبت لے کر آئی ہیں ، کیا میں میری ماں سے ملوں ؟ فرمایا ” ہاں ! اپنی ماں سے ملو ” ( بخاری و مسلم ) ( ان کی وہ نسبی ماں تھی ، ایک قول میں رضاعی ، لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے ۔ ریاض الصالحین ، ص/93 ) . ابو داؤد کی روایت میں ” میری ماں میرے پاس قریبی زمانہ ہی میں ( مجھ سے مل کر کچھ پوچھنے کی چاہت لے کر ) میرے پاس آئیں ، اس حالت میں کہ وہ ( اسلام کو ) ناپسند کرنے والی مشرکہ تھیں ، میں نے کہا ! یارسول اللہ ! میری ماں میرے پاس ناپسند کرنے کی حالت میں مشرکہ رہتے ہوئے آئی ہیں ، کیا میں ان سے جڑ جاؤں ؟ ( رشتہ کو برقرار رکھوں ؟ ) فرمایا ! ” اپنی ماں سے جڑ جاؤ “.

حصرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ کیا میں آپ سے اللہ تعالیٰ سے اجر ( ثواب ) کو طلب کرتے ہوئے ہجرت اور جہاد کرنے پر بیعت نہ کروں ؟ فرمایا ! کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہیں ؟ اس نے کہا کہ ہاں بلکہ دونوں ، فرمایا ! ” کیا تم اللہ سے اجر چاہتے ہو ؟ ” انہوں نے کہا کہ ہاں ! تو فرمایا ! ” اپنے والدین کی طرف لوٹو ، اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو ” ( بخاری و مسلم ) اور یہ مسلم کے الفاظ ہیں ۔ بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص آئے اور انہوں نے جہاد کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ ” تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ ” انھوں نے کہا کہ ہاں ! فرمایا ! ” ان دونوں میں ہی جہاد کرو “. ( متفق علیہ )

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” اس کی ناک مٹی میں مل جائے ، پھر اس کی ناک مٹی میں مل جائے ، پھر اس کی ناک مٹی میں مل جائے ” پوچھا گیا کس کی یا رسول اللہ ؟ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فرمایا ! ” جس نے کبرسنی کے وقت اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پایا اور ( پھر ان کی خدمت اور احسان کرکے ) جنت میں داخل نہیں ہوا “. ( مسلم )

دوسری قسط

صلہ رحمی ایمان کا ایک جزء ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صل رحمی یعنی رشتہ داری کے جوڑے رکھنے کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے ، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! کہ ” جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو چاہئے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو چاہئے کہ وہ اپنی رشتہ داری کو جوڑے رکھے اور جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو چاہئے کہ وہ بھلائی والی بات کرے یا خاموش رہے “. { متفق علیہ ، 7/87 یعنی امام بخاری و مسلم اس حدیث کو روایت کرنے میں متفق ہیں }

صلہ رحمی رزق میں وسعت ، عمر و مال میں برکت اور بری موت مرنے سے بچنے کا ذریعہ ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے اس کی مزید وضاحت ہو رہی ہے ۔

پہلی حدیث : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ” جو شخص اس بات کو پسند کرے کہ اس کے رزق میں وسعت کی جائے اور اس کے لئے اس کی عمر میں تاخیر کی جائے ( یعنی اس کی عمر میں درازی ہو ) تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی صلہ رحمی ( رشتہ داری ) کو جوڑے رکھے ۔ ( متفق علیہ )

دوسری حدیث : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس کو اس بات کی خواہش ہو ( جس کو یہ اچھا لگے ) کہ اس کے رزق کو پھیلایا جائے اور اس کے لئے اس کی عمر میں تاخیر کی جائے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی رشتہ داری کو جوڑے رکھے . ( بخاری ، ترمذی ، ان کے الفاظ یہ ہیں کہ ” تمہارے انساب (رشتہ داروں ) میں سے تم ان چیزوں کو معلوم کر کے رکھو جن کے ذریعہ سے تم اپنے رشتہ داروں سے جڑے رہ سکو ، کیونکہ رشتہ ملاپ ، خاندان میں محبت ( کا ذریعہ ) ، مال میں زیادتی ( کا سبب ) اور عمر میں زیادتی ( کا باعث ) ہے “. ( ترمذی نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ، انتھی ، طبرانی نے بھی اس حدیث کو العلاء بن خارجہ سے ترمذی کے روایت کردہ الفاظ کی طرح ایسی سند سے روایت کیا ہے کہ جس میں کوئی حرج نہیں )

تیسری حدیث : حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” جس کو اس بات سے خوشی ہوتی ہو کہ اس کی عمر میں درازی کی جائے ، اس کے رزق میں وسعت کی جائے ، اور اس سے بری موت کو ٹالا جائے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور اپنی رشتہ داری کو جوڑے رکھے ۔ ( 10/90 ) اس حدیث کو عبداللہ بن امام احمد نے اپنی زوائد میں ، بزار نے اسناد جید سے اور حاکم نے روایت کیا ہے )

چوتھی حدیث : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” تورات میں یہ لکھا ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی عمر میں زیادتی کی جائے اور اس کے رزق میں بھی زیادتی کی جائے تو چاہئے کہ وہ اپنی رشتہ داری کو جوڑے رکھے ۔ ( اس حدیث کو بزار نے لا باس به اسناد سے ، اور حاکم نے روایت کیا ہے ، اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ) .

ابو یعلی کی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ” یقینا صدقہ اور صلہ رحمی کے ذریعہ اللہ عمر میں زیادتی کرتا ہے ، بری موت کو ٹالتا ہے اور مکروہ اور محذور ( ناپسندیدہ اور ڈرائی گئی چیز ) سے بچاتا ہے ۔ ( ابویعلی ) ایک اور حضرت درہ بنت ابو لہب رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیث میں آتا ہے ک وہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا یارسول اللہ! ( صلی اللہ علیہ و سلم ) لوگوں میں سب سے بہتر شخص کونسا ہے؟ فرمایا کہ ان میں رب سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ، ان کی رشتہ داری کو جوڑے رکھنے والا ، آور انھیں اچھائی کا حکم دینے والا ، اور انھیں برائی سے روکنے والا ۔ ( اس کو ابوالشیخ ابن حبان نے کتاب الثواب میں اور بیہقی نے کتاب الزہد وغیرہ میں روایت کیا ہے ) .

پانچویں حدیث : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ” جس کو نرمی کا کچھ حصہ عطا کیا گیا تو اس کو دنیا و آخرت کی بھلائی عطا کی گئی اور صلہ رحمی ، اچھا پڑوسی یا اچھے اخلاق ( راویہ کو شک ہے کہ ان دونوں میں سے کونسا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) گھروں ( اور شہروں ) کی تعمیر کرتے ہیں اور عمروں میں زیادتی کرتے ہیں “. ( اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے روات ثقات ہیں ، تاہم عبدالرحمن بن القاسم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں سنا ہے ) .

تیسری قسط

چونکہ رشتہ کی بڑی اہمیت و قدر ہے ، لہذا صدقہ اور خیر و خیرات وغیرہ کے ذریعہ اپنے رشتہ داروں کی مدد کرنا ضروری ہے . رشتہ کی جس قدر نزدیکی ہو اس کا اسی قدر زیادہ حق ہے ، سو پہلے زیادہ قریبی رشتہ داروں کی مدد کی جائے ، اس کے بعد تھوڑے دور والے رشتہ داروں کی ، اور اس کے بعد اس سے تھوڑے دور والے رشتہ داروں کی ، لیکن اگر دور والے رشتہ دار قریبی رشتہ داروں سے زیادہ محتاج ہوں اور آپ کی مدد کی اسے سخت ضرورت ہو تو ایسے رشتہ داروں کو قریبی رشتہ داروں پر فوقیت دینے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنے پر دوگنا ثواب ملتا ہے ، جیسا کہ مندرجہ ذیل حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ” جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو چاہئے کہ وہ کسی کھجور پر افطار کرے ، پس کھجور اگر اس کو نہ ملے تو پانی سے ، اس لئے کہ وہ پاک ہے ” اور فرمایا کہ ” مسکین پر صدقہ کرنا ایک صدقہ ہے ( یعنی اس پر ایک صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا ) اور رشتہ دار پر ( صدقہ کرنے پر ) دو ( صدقہ کرنے کا ثواب ملتا ہے ) ایک صدقہ کا اور ایک صلہ رحمی کا ۔ ( ترمذی نے اس حدیث کو روایت کرکے حدیث حسن کہا ہے ) . 12/92 ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ابوطلحہ ( انصاری رضی اللہ عنہ ) مدینہ ( منورہ ) میں سب سے زیادہ کھجور کے باغ رکھنے والے مالدار شخص تھے ، اور ان کا سب سے زیادہ پسندیدہ مال بیرحاء ( نامی کھجور کا ) باغ تھا اور وہ مسجد کے ( بالکل ) سامنےتھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں داخل ہو کر اس کااچھا ( شیریں ) پانی نوش کیا کرتے تھے ، جب یہ آیت کریمہ ” لن تنالوا البر حتى تنفقوامما تحبون” یعنی تم اس وقت تک نیکی نہیں پاسکتے جب تک کہ اپنی پسندیدہ چیز کو خرچ نہ کرو ، نازل ہوئی ( سورۂ آل عمران/92 ) تو ابو طلحہ اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ” لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون ” اور میرے پاس میرا پسندیدہ ترین مال بیرحاء ہے ، اور یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے صدقہ ہے ، میں اللہ تعالیٰ کے پاس اس کی نیکی اور اس کا ذخیرہ چاہتا ہوں ، سو آپ اس کو جہاں چاہیں وہاں استعمال کیجئے یا رسول اللہ ! تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بخ ! ( کوئی چیز پسند آنے کے بعد منہ سے نکلنے والا ایک لفظ ) وہ تو رابح ( نفع بخش ) مال ہے ، وہ تو نفع بخش مال ہے ، تم نے جو کچھ کہا وہ میں نے سنا ، اور میں سمجھتا ہوں ( میرا مشورہ ہے ) کہ تم اس کو رشتہ داروں میں رکھو ،( بانٹو ) ابو طلحہ نے کہا ! میں ایسا ہی کروں گا یارسول اللہ ! سو ابوطلحہ نے اس کو اپنے رشتہ داروں اور اپنے چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کیا ) ( بخاری ، مسلم ، ) . اگر ایک شوہر کی کمائی اپنے بال بچوں کے لئے کافی نہ ہوتی ہو تو اس کی بیوی کا اپنے مال کے ذریعہ اس کی مدد کرنا جائز ہے ، جیسا کہ درج ذیل حدیث ہمیں بتاتی ہے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ” اے گروہ زناناں ! صدقہ کرو ، اگر چہ کہ اپنے زیورات کے ذریعہ سے ہی کیوں نہ ہو ” کہتی ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود کے پاس گئی اور ان سے کہا کہ آپ ایک ہلکے ہاتھ والے آدمی ہیں ( یعنی کم مال والے ایک فقیر شخص ) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا ہے ، آپ آنحضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جائیں اور پوچھیں کہ آگر یہ میری طرف سے کافی ہوگیا تو اچھا ہے ، ورنہ میں آپ کے علاوہ کی طرف اس کو صدقہ کروں گی ، تب عبداللہ نے کہا بلکہ تم آپ ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کے پاس جاؤ ، تب میں دیکھتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دروازہ پر انصار کی ایک عورت کھڑی ہے اور میری ضرورت ہی اس کی ضرورت ہے . ( تھی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( کی عظیم شخصیت ) پر ایک قسم کی جلالیت ڈالی گئی تھی ، ہمارے پاس بلال آئے تو ہم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ کو بتاؤ کہ دو عورتیں آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے ( فتوی ) پوچھنے دروازہ کے پاس ( کھڑی ) ہیں ، کیا ان دونوں کے شوہروں اور ان دونوں کی گود میں رہنے والے یتیم بچوں پر ( کو ) صدقہ دینا ان دونوں کی جانب سے کافی ہوگا ؟ ( پر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نہ بتانا کہ ہم کون ہیں؟ بلال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ” کون ہیں وہ دونوں ؟ ” کہا کہ انصار کی عورت اور زینب ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون زیانیب ہیں یہ ؟ ) کہا کہ عبداللہ کی بیوی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ” انہیں دو اجر ہیں ، رشتہ داری کا اجر اور صدقہ کا ” ( بخاری ، مسلم )

چوتھی قسط

اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں کہ اس دنیا میں والدین سے زیادہ قریبی کوئی رشتہ نہیں . اولاد پر ان کی خدمت کرنا واجب ہے ، ان کی خدمت کرنے اور نہ کرنے پر ایک شخص جنت کا حقدار یا دوزخ کا ایندھن بنتا ہے ، والدین کی خوشی میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشی ، ان کی ناراضگی میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ناراضگی اور ان کے پیروں تلے جنت ہے ، اور ان کی بہت ساری فضیلتیں ہیں ، اور اولاد پر ان کے بہت سارے حقوق . اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد ہی والدین پر احسان کرنے کا حکم دیا ہے ، جب وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں تو ان کو کلمہ ” اف ” تک کہنے سے روکا ہے ، ان کے لئے اپنے بازووں کو نرم رکھنے اور نیچے جھکانے کا حکم دیا ہے ، ان کا شکر ادا کرنے اور ان کے لئے رحم کی دعا مانگنے کا حکم دیا ہے ۔ تو ہم اولاد پر ان کے لاتعداد حقوق ہیں جن میں سے چند کو یہاں پر بیان کیا جا رہا ہے . اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ” اور تیرے پروردگار نے یہ حکم ( واجب کیا یا اس بات کی وصیت کی ) دیا کہ تم اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ، جب تیرے پاس ان دونوں میں سے کوئی ایک یا وہ دونوں ہی کبر سنی کی حالت میں پہونچ جائیں تَو تُو ان دونوں کو ( کلمہ) اُف ( تک ) نہ کہہ اور نہ تو ان دونوں کو جھڑک ( کر جواب دے ) اور دونوں سےخوب ( انتہائی ) احترام کے ساتھ بات کر ، اور دونوں کے لئے شفقت سے کندھےکو جھکائے رکھ اور کہہ : اے پالن ہار ان دونوں پر رحم فرما جیساکہ ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے . ( سورۃ الإسراء /23 ، 24 ) دوسری جگہ میں ارشاد فرمایا ” اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔ ( سورۃ النساء/36 ) ایک اور جگہ میں ارشاد فرمایا ” اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وصیت کی ۔ ( سورۃ العنکبوت/7 ) ایک اور جگہ میں اللہ جل جلالہ کا ارشاد ہے ” ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ، اس کی ماں نے اس کو ضُعف پر ضُعف ( سختی پر سختی جھیل کر یا مشقت کے بعد مشقت ) اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کی دودھ چھڑائی میں ( لگے ) ہیں . ( اسی لئے ہم نے اسے حکم دیا ) کہ تو میرا اور اپنے والدین کا شکر بجا لا . ( سورۃ لقمان/14 )

مذکورہ بالا ساری آیتیں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ والدین کی فرمانبرداری بجالانا فرض ہے ۔

اب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ان احادیث کو ذکر کیا جا رہا ہے جن میں ان دونوں کی فضیلت اور اپنے آپ کو ان پر قربان کر دینے کا حکم آیا ہے .

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کرنے لگا کہ میں اس لئے آیا ہوں تاکہ آپ کے ( مبارک ) ہاتھ پر ہجرت کرنے پر بیعت کروں ، حالانکہ میں نے اپنے ماں باپ کو روتے ہوئے چھوڑا ہے ، فرمایا ! ” ان دونوں کی طرف واپس جا اور ان دونوں کو اسی طرح ہنسا جیسا تم نے ان دونوں کو روتے ہوئے چھوڑا تھا ” ( ابوداؤد /92/12 )

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں جہاد کی تمنا رکھتا ہوں پر اس پر قدرت نہیں رکھتا ہوں تو فرمایا ! ” کیا تمہارے والدین میں سے کوئی باقی ( زندہ ) ہے ؟ کہنے لگا کہ میری ماں ( باقی ہے ) اس کی فرمانبرداری میں اللہ کے سامنے آجا ( اس کی فرمانبرداری سے اللہ کو خوش کر ) سو جب تم اس کو کرو گے تَو تم حاجی ، معتمر اور مجاھد ہو جاؤ گے ” ( ابویعلی ، طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہےاور دونوں روایتوں کی سند جید ہے ، میمون بن نجیح کو ابن حبان نے قابل بھروسہ بتایا ہے اور اس حدیث کے بقیہ روات مشہور ثقات ہیں )

حضرت امامہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک شخص نے کہا ! یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) والدین کا ان دونوں کی اولاد پر کیا ( کونسا ) حق ہے؟ فرمایا ! ” وہ دونوں تمہاری جنت اور دوزخ ہیں ” ( ابن ماجہ نے اس حدیث کو علی بن یزید ، انھوں نے قاسم سے روایت کیا ہے ) .

پانچویں قسط

نافرمان اولاد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت سے دور ہو کر اپنا ٹھکانہ جھنم میں بنا لیتی ہے جیساکہ درج ذیل حدیث سے اس کی وضاحت ہو رہی ہے .

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا ! ” آمین ، آمین ، آمین ” ( یعنی باری تعالیٰ قبول فرما ) فرمایا ! ” میرے پاس جبرئیل عليہ الصلوة والسلام تشریف لائے اور کہا کہ یا محمد ! جس نے اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک کو پایا پھر ( ان کی نافرمانی کرتے ہوئے ) مر گیا تو وہ جہنم میں جائے گا تو اللہ اس کو ( اپنی رحمت سے ) دور کرے ، کہہ دیجئے آمین ، میں نے کہا ، آمین ، پھر فرمایا ! یامحمد ! جس نے ماہ رمضان کو پایا پھر مر گیااور اس کی مغفرت نہ کی گئی ، سو اس کو جھنم میں داخل کیا جائے گا ، پھر اللہ اس کو دور کرے ، سو آمین کہہ دیجئے ، تب میں نے کہا آمین ، کہا ( حضرت جبریئل علیہ السلام نے ) اور جس شخص کے پاس آپ کا ذکر کیا جائے اور وہ آپ پر درود نہ بھیجے اور مرجائے تو وہ جہنم رسید ہوگا ، سو اللہ اس کو دور کرے ، کہہ دیجئے آمین ، میں نے کہا آمین ” ( اس حدیث کو طبرانی نے کئی اسانید سے روایت کیا ہے جن میں سے ایک حسن ہے ،( 95/15 ) اور ابن حبان نے اس کو اپنی صحیح میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ سے نقل کیا ہے کہ ” اور جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو پایا پھر ان دونوں کی فرمانبرداری کئے بغیر ہی مر گیا تو وہ جہنم میں داخل ہو گا ، سو اللہ اس کو دور کرے ، کہہ دیجئے آمین ، میں نے کہا آمین ” ( اس حدیث کو انھوں نے حسن بن مالک حویرث سے ، انھوں نے اپنے باپ سے ، اپنے دادا سے بھی روایت کیا ہے ، اور حاکم وغیرہ نے کعب بن عجرہ کی حدیث سے ، اور انھوں نے اس ( حدیث ) کے آخر میں کہا کہ ” پھر جب آپ ( صلی اللہ علیہ و سلم ) تیسرے ( زینہ ) پر چڑھے تو فرمایا ( جبرئیل امین نے ) وہ شخص دور ہو جائے جس نے اپنے پاس اپنے والدین کو یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو پایا پھر وہ دونوں اس کو ( اس کی اپنے والدین کی فرمانبرداری نہ کرنے کی وجہ سے ) جنت میں داخل نہیں کر سکے ، میں نے کہا آمین ” اور ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کردہ طبرانی کی حدیث میں اسی ( مفہوم ) جیسی حدیث گذر گئی ،اس میں ہے کہ ” اور جس نے اپنے دونوں والدین ( یعنی ماں باپ ) کو یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو پایا پھر ان دونوں کی فرمانبرداری نہ بجا لائی تو آگ میں داخل ہوگا ، سو اللہ اس کو دور کرے ، اور اسے ہلاک کر دے ، میں نے کہا آمین ” ( طبرانی )

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کیا ہے ، کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” اس کی ناک مٹی میں مل جائے ، پھر اس کی ناک مٹی میں مل جائے ، پھر اس کی ناک مٹی میں مل جائے ، پوچھا گیا کس کی یا رسول اللہ ؟ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فرمایا ! ” جس نے کبر سنی کے وقت اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پایا پھر جنت میں داخل نہیں ہوا ” ( مسلم ) حضرت مالک بن عمرو القشیری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ” جس نے کسی مسلمان کی گردن ( غلام یا باندی ) کو آزاد کیا تو یہ ( آزادی ) اس کی جہنم کا فدیہ ہے ( یعنی اس کا آزاد کرنا اس کو جہنم سے آزادی کا ایک ذریعہ ہے ، ایک فدیہ ہے ) اور جس نے اپنے والدین میں سے کسی کو پایا پھر اس کی مغفرت نہ کی گئی ( اولاد کی نافرمانی کی وجہ سے ) تو اللہ اس کو ( اپنی رحمت سے ) دور رکھے گا ” ایک روایت میں انھوں نے ( اللہ ) ” اس کو ہلاک کرے گا ” کی زیادتی کی ہے . ( امام احمد نے اس حدیث کو کئی طریقوں سے روایت کیا ہے جن میں سے ایک حسن ہے )

اولاد اگر اپنے والدین کی فرمانبردار ہو تو ان کی اولاد ان کی فرمانبردار ہوتی ہے ۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! اپنے آباء ( والدوں ) کی فرمانبرداری کرو ، تمہارے بچے تمہاری فرمانبرداری کریں گے ، اور پاکدامنی اختیار کرو ، تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی ” امام طبرانی نے اس حدیث کو اسناد حسن سے روایت کیا ہے اور اس حدیث کو انھوں اور ان کے علاوہ دوسروں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت کیا ہے )

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! تم لوگوں کی عورتوں سے پاکدامنی اختیار کرو تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی اور تمہارے آباء کی فرمانبرداری بجا لاؤ تمہارے بچے تمہارے فرمانبردار ہوں گے اور جس کے پاس اس کا بھائی اپنے گناہوں سے بری ( پاک ) ہو کر آئے تو چاہئے کہ وہ اس کو قبول کرے خواہ وہ حق کے ساتھ ہو کہ باطل کے ساتھ ( یعنی فعلی طور پر وہ بَری ہوا ہو کہ نہیں ) پس اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو وہ حوض ( کوثر ) کے پاس نہ آئے ” ( حاکم نے اس حدیث کو سوید کی روایت سے ، انھوں نے ابو رافع سے روایت کیا ہے اور کہا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے )

والدین کی فرمانبرداری نہ صرف اولاد کو جنت میں داخل کرتی ہے بلکہ ان کو دنیاوی مصیبتوں سے بھی نجات دلاتی ہے ۔جس کی بہترین مثال ہمیں درج ذیل حدیث میں ملتی ہے ۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ کہتے ہوئے سنا ! ” تم سے پہلے والوں میں سے تین شخص ( کسی کام سے ) چل پڑے تھے حتی کہ انھوں نے ایک غار میں پناہ لی اور اس میں گھس گئے تبھی پہاڑ کی ایک چٹان لڑھک کر آئی اور اس نے انھیں بند کر دیا ، وہ کہنے لگے کہ اس چٹان سے تمہیں کوئی نجات نہیں دلا سکتا مگر یہ کہ تم اللہ سے اپنے صالح اعمال کے وسیلہ سے دعا کرو ، ان میں سے ایک شخص کہنے لگا اے باری تعالیٰ ! میرے دو بہت بوڑھے والدین تھے اور میں ان دونوں سے پہلے کسی کو بھی ترجیح نہیں دیتا تھا نہ اہل وعیال ( بیوی بچوں ) کواور نہ ہی مال کو ، دریں اثناء ایک درخت کو ( مویشیوں کو چرانے کے سلسلہ میں ) طلب کرتے ہوئے میں دور جا نکلا اور شام تک ان دونوں کے پاس نہیں لوٹ سکا حتی کہ وہ دونوں سو گئے ، سو میں دودھ دھو کر ان دونوں کیلئے رات کا پینا ( عشائیہ ) لے کر آیا تو وہ دونوں سو چکے تھے پس میں نے ان دونوں سے پہلے اپنے اہل ( عیال ) کو پلانا پسند نہیں کیا اور اس حال میں ٹہرا رہا کہ پیالہ میرے ہاتھ میں تھا اور میں ان دونوں کے بیدار ہونے کا انتظار کرتا رہا حتی کہ فجر طلوع ہوئی تو وہ دونوں جاگ گئے اور اپنا عشائیہ پی لیا ، اے باری تعالیٰ ! اگر میں نے اس کو تیری مرضی طلب کرتے ہوئے کیا تھا تو اس چٹان کی وجہ سے جس پریشانی میں ہم ہیں اس پریشانی کو دور فرما تو اتنا حصہ ہی کھل گیا کہ جس سے وہ نکل نہیں سکتے تھے ، دوسرا کہنے لگا کہ اے اللہ ! میری ایک چچا زاد بہن تھی اور وہ مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب تھی تو میں نے اس سے چاہا….. ( بخاری و مسلم ، 100/20 ) اتنا لکھنے کے بعد صاحب ترغیب وترہیب کہتے ہیں کہ اس کا اور اس کی غریب شرح کا بیان اخلاص میں گذر گیا ( اس میں ایک اور شخص کے اچھے کام کا تذکرہ ہے ، اس طرح وہ چٹان غار سے ہٹ جاتی ہے اور وہ تینوں صحیح سلامت غار سے نکل آتے ہیں ۔ ( واللہ اعلم )

چھٹی قسط

رشتوں کی اہمیت و فضیلت میں والدین کے رشتہ کو اول درجہ کی فضیلت حاصل ہے ، اور اس رشتہ کی اہمیت و فضیلت ، اونچائی و بلندی ، نزاکت و لطافت میں بہت ساری آیات کریمہ اور درجنوں احادیث شریفہ وارد ہوئی ہیں ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کی پرورش میں ماں اور باپ دونوں کا ہاتھ اور دونوں کی محنت ہوتی ہے . ان دونوں ہی کی کاوشوں اور ان تھک کوششوں اور محنتوں سے بچے پروان چڑھتے ہیں ۔

اب دلچسپ سوال یہ ہے کہ اولاد پر فرمانبرداری کے سلسلہ میں والدین میں سے کس کا زیادہ حق ہے ؟ والد کا اس وجہ سے کہ وہ کما کر اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں دن رات ایک کرتا ہے ، یا والدہ کا ؟ جس کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے ، اور شوہر کی موجودگی اور غیر موجودگی دونوں صورتوں میں پوری طرح گھر کو سنبھالے رکھتی ہے ، یا دونوں کا ایک ہی طرح کا حق ہے ؟

نصوص پر اگر نظر ڈالی جائے تو باپ کا حق ماں سے کسی طرح بھی کم نہیں معلوم ہوتا ہے . سورہ نساء میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دونوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے . سورہ عنکبوت میں جہاں والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا ہے وہیں سورہ إسراء میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے ، ان کے عمر رسیدہ ہونے پر انہیں اُف تک نہ کہنے کا ، ان کو نہ جھڑکنے کا ، ان کے لئے دعا مانگنے کا ، اور ان کے لئے اپنے شفقت کے بازووں کو جھکائے رکھنے کا حکم دیا ہے .

اور اگر ہم احادیث کی اتاہ گہراہی کا اپنے انداز میں احاطہ کریں تو یہاں بھی والد کا درجہ والدہ سے کسی بھی طرح کم نظر نہیں آتا .

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں دونوں کے ساتھ اچھی طرح سے رہنے کا حکم دیا گیا ہے . پھر بخاری اور مسلم کی روایت میں ایک شخص کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جہاد کی اجازت طلب کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے والدین ہی میں جہاد کرنے کا حکم دیا ہے . طبرانی کی روایت میں ” دونوں کے قدموں کے نیچے جنت ہونے کی خبر دی ہے ” ابن ماجہ کی روایت کردہ حدیث میں ” والدین کو اولاد کی جنت اور دوزخ کہا گیا ہے ” پھر اور تھوڑی گہراہی میں جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں کی فضیلت واہمیت کو الگ الگ احادیث میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ” فرمایا ہے وہیں ابو داؤد کی روایت کردہ صحیح حدیث میں باپ کو ” جنت کا درمیانی دروازہ ” فرمایا ہے ۔ جہاں ہمیں ماں کی فضیلت میں والدہ سے چپک کر رہنے کا حکم دیا ہے . کیونکہ وہاں ” جنت ہے ” کی حدیث ملتی ہے تو وہیں ہمیں باپ کی فضیلت میں آئی ہوئی عبداللہ بن عمر کی مسلم کی شرط پر صحیح قرار دادہ حاکم کی وہ روایت بھی ملتی ہے جس میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” اللہ کی رضا مندی والد کی رضا مندی پر ہے اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی پر ہے ” پس ان تمام نصوص سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کی اہمیت ، فضیلت ، بزرگی اور حق یکساں ہے لیکن ہمارا تھوڑا سا جھکاؤ ماں کی بزرگی کی طرف ہے . اس کی وجہ ہے ، کیونکہ اولاد بھی باپ کے مقابلہ میں ماں کی طرف زیادہ جھکی ہوئی نظر آتی ہے اور پھر ہم قرآن کریم کی آیت کریمہ کی طرف دیکھیں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ماں کا تذکرہ کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ جس سے ماں کی بزرگی باپ کے مقابلہ میں کچھ زیادہ ہی نظر آتی ہے . اس کی ماں نے اس کو ضعف پر ضعف اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابی کے پوچھنے پر کہ اس کے ساتھ اچھی طرح سے رہنے کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے کے سوال میں ” تین مرتبہ تمہاری ماں کہا تھا اور چوتھی مرتبہ تمہارے باپ فرمایا تھا . اس سے والدہ کی والد پر ایک گونہ فضیلت کا پتہ چلتا ہے ۔

ساتویں قسط

والدین کی فضیلت پر آئی ہوئی چند احادیث درج ذیل ہیں ۔

101/21 : حضرت امامہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک شخص نے پوچھا ! یا رسول اللہ ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) والدین کا اپنی اولاد پر کیا حق ہے ؟ فرمایا ! ” وہ دونوں تمہاری جنت اور دوزخ ہیں ” ( اس حدیث کو ابن ماجہ نے علی بن یزید سے انھوں نے قاسم سے روایت کیا ہے .

102/22 : حضرت معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جاہمہ ( رضی اللہ عنہ ) رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اورعرض کیا ! یارسول اللہ ! ( صلی اللہ علیہ و سلم ) میں غزوہ کا ارادہ رکھتا ہوں اور آپ سے مشورہ طلب کرنے کے لئے آیا ہوں ، فرمایا ! ” کیا تمہاری ماں ( بقید حیات ) ہیں ؟ ” انھوں نے کہا ! ہاں ، فرمایا ! اس کو لازم بنائے رکھ ( چپک کر رہ ) اس لئے کہ جنت اس کے دونوں پیروں کے نیچے ہے ” ( ابن ماجہ ، نسائی ، الفاظ انہی کے ہیں اور حاکم نے بھی صحیح الاسناد کہہ کر روایت کیا ہے . 103/23 : اسی طرح طبرانی نے بھی اس حدیث کو اسناد جید کہہ کر نقل کیا ہے ، ان کے الفاظ یہ ہیں ، کہتے ہیں ( صحابی جاہمہ ) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جہاد میں جانے کے سلسلہ میں مشورہ طلب کرنے کے لئے آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا ! ” کیا تمہارے والدین ( باحیات ) ہیں ؟ ” میں نے کہا ! ہاں ! فرمایا ! ان دونوں سے لگے رہو ، اس لئے کہ ان دونوں کے پیروں تلے جنت ہے “

104/24 : حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” اللہ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے . ” ( ترمذی نے حدیث کو موقوف ہونے پر ترجیح دی ہے اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور حاکم نے کہا کہ یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے . طبرانی نے اس حدیث کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے مگر یہ کہ انھوں نے کہا کہ اللہ کی اطاعت کرنا والد کی اطاعت کرنا ہے اور اللہ کی نافرمانی کرنا والد کی نافرمانی کرنا ہے ۔ اور بزار نے عبداللہ بن عمر یا ابن عمرو سے ، میرے ذہن میں نہیں آرہا ہے کہ ان دونوں میں سے کن سے ( یہ الفاظ صاحب ترغیب و ترہیب کے ہیں ) ان ( صحابی ) کے الفاظ یہ ہیں ” اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضامندی والدین کی رضامندی میں ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے “

105/25 : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا ! میں نے بہت بڑا گناہ کیا ہے ، کیا میرے لئے توبہ ( کا کوئی راستہ ) ہے ؟آپ ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نے فرمایا ! ” کیا تمہاری ماں ہیں ” انھوں نے کہا ! نہیں ! فرمایا ! ” کیا تمہاری کوئی خالہ ہے ؟ انھوں نے کہا ! ہاں ! فرمایا ! ” ان کی فرمانبرداری بجا لاؤ ” ( اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے ، الفاظ انہی کے ہیں . ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے مگر ان کی روایت کردہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں ” کیا تمہارے والدین ہیں ؟ ” ( دونوں کے تعلق سے حاکم نے کہا کہ یہ حدیث دونوں ( بخاری و مسلم ) کی شرط پر صحیح ہے ) .

آٹھویں قسط

ماں باپ کی خوشی ، ان کی خدمت گذاری اور ان کی فرمانبرداری ، اولاد پر جنت کے دروازے کھولتی ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” جو شخص اپنے والدین کے سلسلہ میں اللہ کا فرمانبردار بن کر صبح کرتا ہے تو اس کے لیے صبح میں جنت کے دو دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور اگر ایک کی ( فرمانبرداری بجا لاتے ہوئےصبح کرتا ہے ) تو ایک ، اور اگر وہ اپنے والدین کے سلسلہ میں اللہ کا نافرمان بن کر شام کرتا ہے تو اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور اگر ایک کا ، تو ایک ” ایک شخص نے عرض کیا کہ اگر ان دونوں نے ظلم کیا ہو ؟ ( تب ؟ ) فرمایا ! اور اگر ان دونوں نے ظلم کیا ہو اور اگر ان دونوں نے ظلم کیا ہو اور اگر ان دونوں نے ظلم کیا ہو “. ( امام بیہقی نے اس حدیث کو ” شعب الایمان ” میں روایت کیا ہے ) اور انہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” کوئی اولاد ایسی نہیں جو اپنے والدین کو رحمت سے ایک نظر دیکھتی ہو مگر یہ کہ اللہ اس کے لئے ہر نظر کے بدلہ میں ایک مقبول حج کا ثواب لکھتا ہے ” صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا کہ اگر وہ ایک دن میں سو مرتبہ دیکھتی ہو ؟ ( تب ؟ ) ( تب بھی؟ ) فرمایا ! ” اللہ سب سے بڑا اور سب سے پاک ہے ” . ( بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے ) . ( نوٹ : ان دو حدیثوں پر ہم نے ضعیف ہونے کی وجہ سے نمبر شمار نہیں ڈالے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ میں اپنے ان دروسِ احادیث میں ضعیف احادیث کو جگہ نہیں دیتا ہوں ، ان دو حدیثوں کو یہاں لانے کی وجہ یہ ہے کہ معناً یہ دونوں حدیثیں بڑی بامعنی ہیں اور حد درجہ ضعیف بھی نہیں . واللہ تعالی اعلم )

حضرات ! والدین کا مرتبہ اتنا اونچا اور بلند ہے کہ ان کی خوشی کے لئے ان کی فرمانبرداری بجا لاتے ہوئے ، اگر کسی وجہ سے ان میں سے کسی نے اپنی اولاد کو طلاق دینے کا حکم دیا تو ان کے حکم کو بجا لانا ضرودی ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے اس کی وضاحت ہو رہی ہے ۔

106/26 : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میرے تحت ( نکاح میں ) ایک عورت تھی جس کو میں چاہتا تھا اور عمر ( رضی اللہ عنہ ) اس کو ناپسند کرتے تھے ، انھوں نے مجھ سے کہا کہ اسے طلاق دے دو ( شاید آپ نے اس عورت میں کوئی نا مناسب چیز دیکھ لی ہوگی ) میں نے انکار کیا تب عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور اس کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا ! ” اس کو طلاق دے دو ” ( ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو روایت کیا ہے اور ترمذی نے حدیث کو حسن صحیح کہا ہے )

 107/27 : حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک شخص ان کے پاس آکر کہنے لگا کہ میرے پاس ایک عورت ( بیوی ) ہے اور میری ماں اسے طلاق دینے کا حکم دے رہی ہے تو انھوں ( ابودرداء ) نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ” والد جنت کے درمیانی دروازوں میں سے ہے پس تم اگر چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو یا اس کو محفوظ کر دو ” ( ابن ماجہ ، ترمذی اور الفاظ انہی کے ہیں ۔ اور کہا( ترمذی نے ) سفیان ( جلیل القدر تابعی ) نے کبھی میری ماں نے کہا ، اور کبھی میرے باپ نے ، ( یعنی حدیث میں میری ماں طلاق دینے کا حکم دے رہی ہے یا باپ ) ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے .

108/28 : اس حدیث کو ابن حبان نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ، ان کے الفاظ یہ ہیں کہ ابو درداء کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میرے باپ میرے پیچھے پڑے رہے حتی کہ مجھے شادی کر کے دی اور اب وہ مجھے طلاق دینے کے لیے کہہ رہے ہیں ، کہنے لگے ( ابودرداء ) میں تمھیں اس بات کا حکم نہیں دوں گا کہ تم اپنے والدین کے نافرمان بن جاؤ اور نہ ہی تم سے یہ کہوں گا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دو ، ہاں ! مگر یہ کہ اگر تم چاہو تو میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہوا کلام بیان کروں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے ہوئے سنا ہے کہ ” والد جنت کے درمیانی دروازوں میں سے ہے سو ! اگر تم چاہو تو اس دروازہ کی حفاظت کرو یا اس کو چھوڑ دو “.

نویں قسط

اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک رشتوں کی بڑی ہی وقعت و عظمت ہے . جو شخص صلہ رحمی کو جوڑے رکھتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ بھی اس سے جُڑے رہتا ہے اور جو شخص رشتوں ناطوں کو توڑتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ بھی اس سے دور رہتا ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے اس کی وضاحت ہو رہی ہے .

109/29 : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا فرمایا حتی کہ جب ان ( کی تخلیق ) سے فارغ ہوا تو رحم ( رشتہ داری ) کھڑے ہو کر کہنے لگی یہ تجھ سے ( صلہ رحمی کو ) توڑنے سے پناہ مانگنے کا مقام ہے ؟فرمایا ! ہاں ! کیا تُو اس بات سے راضی نہیں کہ جو شخص تجھ سے جڑا رہے گا میں اس سے جڑا رہوں گا اور جو تجھے کاٹے گا میں اس سے کٹ کر رہوں گا ؟ کہنے لگی ہاں ( میں اس سے راضی ہوں ) فرمایا ! ( اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ) سو یہ تیرے لئے ہے ( یعنی ایسا ہی ہوگا ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ( بطور استدلال ) فرمایا ! تم چاہو تو پڑھو ! ” فھل عسیتم إن تولیتم أن تفسدوا فی الأرض وتقطعوا أرحامکم ، أولئك الذین لعنهم اللہ فأصمھم وأعمی أبصارھم ” تم سے اس کے علاوہ اور کیا توقع ہے کہ اگر تم ( ایمان سے ) پلٹ گئے تو زمین میں فساد برپا کرو گے اور اپنے رشتہ داروں ( کی رشتہ داری ) کو توڑ ڈالو گے ، یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت بھیجی ( اپنی رحمت سے دور کیا ) پس انھیں بہرا بنا دیا اور ان کی بصارت کو اندھا کیا ۔ ( سورۂ محمد/22 ، 23 ) ( بخاری و مسلم ) مشکواۃ میں یہ حدیث کچھ کم الفاظ سے آئی ہے اور اس میں آیت کریمہ بھی دلیل کے طور پر نہیں لائی گئی ہے ، الفاظ حدیث درج ذیل ہیں : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! اللہ نے مخلوق پیدا فرمائی ، پھر جب اس سے فارغ ہوا تو رحم ( صلہ رحمی ) نے کھڑے ہوکر رحمان کی کمر پکڑ لی ( یعنی اللہ سے مدد و نصرت طلب کرنے لگی ) فرمایا ! چھوڑ دے ، کہنے لگی ! یہ تجھ سے ٹوٹنے سے بچے رہنے کا مقام ہے ؟ فرمایا ! کیا تو اس بات سے راضی نہیں ہوگی کہ جس سے تو جڑے رہے گی ، اس سے میں جڑا رہوں گا اور جس سے تو کٹ کر رہے گی ، اس سے میں کٹ کر رہوں گا ، کہنے لگی ! یارب ! ہاں ، فرمایا ! ایسا ہی ہوگا . ( متفق علیہ )

110/30 : رشتہ داری کا مقام اتنا بلند و بالا ہے کہ اس کی جگہ اللہ کے عرش کے پاس ہے اور وہ عرشِ رب سے لٹکی ہوئی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! رشتہ داری عرش سے لٹکی ہوئی ہے ، وہ کہتی ہے جو مجھ سے جڑ کر رہے گا ، تو اللہ اس سے جڑ کر رہے گا اور جو مجھ سے کٹ کر رہے گا تو اللہ ( بھی ) اس سے کٹ کر رہے گا . ( بخاری و مسلم )

111/31 : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” رحم ( رشتہ داری ) رحمان کی ایک شاخ ہے ( ایک دوسرے سے ملی ہوئی ڈالیوں کو کہتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی رحمت کے آثار میں سے ایک اثر ہے ) اللہ نے فرمایا ! جس سے تو جڑی رہے گی اس سے میں جڑا رہوں گا اور جس سے تو کٹ کر رہے گی اس سے میں کٹ کر رہوں گا “. ( بخاری )

112/32 : اسی مفہوم کی ایک اور عمدہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے آئی ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ” بلا شبہ رحم ، رحمان کی ایک شاخ ہے ( یعنی ہر چیز کی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی چیز کو کہتے ہیں یعنی رشتہ داری بھی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی چیز ہے ، اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ خود رحمان کی ذات میں سے ہے لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رحم کے لئے اپنا ایک نام دیا ہے اور یہ رشتہ داری پر اور ان لوگوں پر جو اس سے جڑے ہوئے ہیں ایک بہت بڑا احسان ہے اور جو شخص اس کو توڑتا ہے اس پر ایک زبردست ناراضگی ہے ، اس لئے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حکمت یہ تقاضہ کرتی ہے کہ جیسے پانی کے بنا مچھلی کی زندگی کا تصور نہیں کیا سکتا اسی طرح انسان کے لئے بھی بھائی بہنوں اور رشتہ داروں کے علاوہ سکون کی زندگی گذارنا ناممکن ہے ) کہتی ہے کہ پروردگار ! میں تو توڑ دی گئی ، یارب ! میرے ساتھ برا کیا گیا ، اے رب ! مجھ پر ظلم کیا گیا ، یارب ! تب اللہ اس کو جواب دیتا ہے کیا تو اس بات سے راضی نہیں کہ جس سے تو جڑی رہے گی اس سے میں جڑا رہوں گا اور جس سے تو کٹ کر رہے گی اس سے میں کٹ کر رہوں گا “. ( امام احمد نے اس کو جید اسناد سے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں ) .

113/33 : حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ” اللہ عزوجل نے فرمایا ! میں اللہ ہوں اور میں رحمان ہوں ، میں نے رحم کو پیدا فرمایا اور اس کے لئے میرے نام میں سے ایک نام نکالا ، جو شخص اس کو جوڑے گا ، میں اس سے جڑوں گا اور جو اس سے کٹے گا میں اس سے کٹوں گا “. ( ابوداود اور ترمذی نے اس حدیث کو ابوسلمہ سے روایت کیا ہے اور انھوں نے عبدالرحمان بن عوف سے ، ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے ) .

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” تین چیزیں عرش سے لٹکی ہوئی ہوں گی ، رحم ( رشتہ داری ) کہے گی ! اے اللہ ! میں تجھ سے ہوں ، میں توڑی نہیں جاؤں گی ، امانت کہے گی ! اے اللہ ! میں تجھ سے ہوں ، میں خیانت نہیں کی جاؤں گی اور نعمت کہے گی ! اے اللہ میں ( بھی ) تجھ ( ہی ) سے ہوں ، میں ناشکری نہیں کی جاؤں گی ” ( بزار ) .

114/34 : حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” رحم ایک حجنہ ( خمدار لوہے کا آلہ ہے یا لوہے کا وہ خمدار راڈ جس پر دھاگے کو لٹکا کر دھاگہ بٹا جاتا ہے ) ہے ، وہ عرش کو تھامے ہوئے ہے ، زبان قال سے کہتا ہے ، اے اللہ ! جو مجھ سے جڑ جاتا ہے تو اس سے جڑ جا اور جو مجھ سے کٹ جاتا ہے تو اس سے کٹ جا ، تب اللہ تبارك و تعالیٰ فرماتا ہے ! میں رحمان و رحیم ہوں اور میں نے رحم کا میرے نام سے نام نکالا ہے ، پس جو شخص اس سے جڑا رہے گا میں بھی اس سے جڑا رہوں گا اور جو اس سے کٹا رہے گا میں بھی اس سے کٹا رہوں گا “. ( بزار نے اسناد حسن سے اس حدیث کو روایت کیا ہے ) .

115/35 : حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” سود کی قسموں میں سے سب سے بڑی قسم ( جس سود میں سب سے زیادہ گناہ ہے ) مسلمان کی آبرو ریزی میں بغیر حق کے ظلم کرنا ہے اور یہ رحم رحمان کا شعبہ ( شاخ ، ایک حصہ ) ہے ، سو جو شخص اس کو کاٹے گا تو اللہ اس پر جنت کو حرام ٹہرائے گا “. ( احمد ، بزار ، احمد کے رواۃ ثقات ہیں ) .

دسویں قسط

کلام رشتوں ناطوں پر ہو رہا ہے جو بہت نازک اور انتہائی نازک ہے ، لہذا دل میں جس قدر اس کی اہمیت و قدر ہوگی اسی کے بقدر اس کے اخلاق بلند ہوں گے ، تب ایک اچھے اخلاق والے شخص سے یہی امید و توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے رشتوں و ناطوں کا خوب خیال کرے گا اور کسی رشتہ دار سے کچھ کوتاہی ہوئی ہو تو اس کی چشم پوشی کرے گا اور اس کی وجہ سے اپنے رشتہ پر کسی قسم کی کوئی آنچ نہ آنے دے گا حتی کہ کوئی رشتہ دار اگر اس سے رشتہ توڑنے پر آمادہ ہو تو اس کو سمجھا بجھا کر رشتہ کو استوار رکھنے کی پوری کوشش کرے گا کیونکہ اگر کسی کا رشتہ دار اس سے رشتہ پوری طرح نبھا رہا ہے اور اس کے بدلہ میں یہ بھی اپنی رشتہ داری کو اس کے ساتھ نبھا رہا ہے تو اس کو رشتہ داری جوڑنے والا نہیں کہیں گے ، بلکہ رشتہ داری کو جوڑے رکھنے والا اس شخص کو کہا جائے گا جب اس کا کوئی رشتہ دار اس سے قطع تعلق کر رکھے اور یہ شخص اپنی طرف سے سمجھا بجھا کر پھر اس رشتہ کو ہموار کرے ، جیسا کہ نیچے آنے والی احادیث سے اس کی وضاحت ہو رہی ہے ۔

116/36 : حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” بدلہ کے طور پر ایک دوسرے سے ( رشتہ کو ) جوڑنے والا رشتہ کو جوڑنے والا نہیں ہے ، رشتہ کو جوڑنے والا تو وہ شخص ہے جب اس کی رشتہ داری ٹوٹ جائے تب وہ اسکو جوڑے ” ( بخاری ، ابوداؤد ، ترمذی ، الفاظ بخاری کے ہیں ) .

117/37 : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا ! یارسول اللہ ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے کچھ ایسے رشتہ دار ہیں جن کی رشتہ داری کو میں جوڑے رکھتا ہوں حالانکہ وہ میری رشتہ داری کو توڑتے رہتے ہیں ، میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برا برتاؤ کرتے ہیں اور میں ان کے تیں بردباری سے کام لیتا ہوں اور وہ مجھ سے جہالت سے پیش آتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” اگر تم ایسے ہی ہو جیسا کہہ رہے ہو تو گویا تم انہیں گرم ( گرم ) راکھ کھلا رہے ہو ، ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے رشتہ داروں کے ساتھ اس کے باوجود کہ وہ اس کے ساتھ برائی سے پیش آرہے ہیں اس کی اچھائی کرنے کو گرم راکھ سے تشبیہ دی ہے ، یعنی اپنے احسان کے ذریعہ گویا وہ انہیں گرم گرم راکھ کھلا رہا ہے جس سے انھیں تکلیف پہنچتی ہے ، اس محسن پر کوئی گناہ نہیں ، لیکن اس کے رشتہ داروں پر اپنے رشتہ دار کے حق میں کوتاہی برتنے اور اس کو تکلیف دینے کی بنا پر بہت بڑا گناہ ہے ۔ ( امام نووی ، ریاض الصالحین ، ص/92 ، حدیث نمبر 320 کی تفسیر ) اور جب تک تم ( اپنے ) اس اخلاق پر قائم رہو گے تب تک ان کے خلاف تجھ پر اللہ کی مدد ہوتی رہے گی . ( مسلم )

112/32 : حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” سب سے فضیلت والا صدقہ دل کے اندر دشمنی رکھنے والے رشتہ دار پر صدقہ کرنا ہے ” ( طبرانی ، ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اور حاکم نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے ، امام حاکم نے اس حدیث کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے ) ( یعنی افضل ترین صدقہ ثواب کے اعتبار سے وہ صدقہ ہے جو ایک رشتہ دار اپنے اس رشتہ دار پر کرتا ہو جس کے دل میں صدقہ کرنے والے کے تیں عداوت اور دشمنی بھری ہوئی ہو اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ” اور تم اس رشتہ دار کی رشتہ داری کو جوڑو گے جس نے تیری رشتہ داری توڑ رکھی ہے” ( ترغیب وترھیب ، حدیث نمبر ، 3858 کی تشریح )

113/33 : جس شخص کے اندر تین چیزیں ہوں گی تو اس کا حساب آسانی سے لیا جائے گا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کو جنت میں داخل فرمائے گا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! جس شخص کے اندر تین چیزیں ( خصلتیں ) ہوں تو اللہ اس کا حساب آسانی سے لے گا اور اپنی رحمت سے اس کو بہشت میں داخل فرمائے گا ” صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا ! یا رسول اللہ ! ( صلی اللہ علیہ و سلم ) میرے ماں باپ آپ پر قربان وہ کونسی چیزیں ہیں؟ فرمایا ! جو تمہیں محروم رکھتا ہو اس کو دو ، جو تمہاری رشتہ داری کو کاٹتا ہو اس سے جڑ جاؤ اور جو تم پر ظلم کرتا ہو اس کو معاف کرو ، جب تم ایسا کرو گے تو اللہ تمھیں جنت میں داخل فرمائے گا ” ( بزار ، طبرانی ، حاکم اور انھوں نے اس حدیث کو صحیح اسناد والی کہا ہے )

114/34 : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ( مبارک ) ہاتھ کو تھام کر عرض کیا ( غالبا یہ کسی دوسری حدیث کے الفاظ ہیں کیونکہ حدیث ” پھر ” سے شروع ہوتی ہے ) یا رسول اللہ ! ( صلی اللہ علیہ و سلم ) مجھے سب سے فضیلت والے اعمال بتا دیجئے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” اے عقبہ ! اس شخص ( رشتہ دار ) سے جڑ جا جس نے تجھے کاٹا (جس نے تیری رشتہ داری کو توڑا ) ہے اور اس کو دے ، جس نے تجھے محروم کیا ہے اور اس سے منہ موڑ جس نے تجھ پر ظلم کیا ہے ” ایک روایت میں ” اور اس شخص کو معاف کر جس نے تجھ پر ظلم کیا ہے ” آیا ہے ۔ ( احمد ، حاکم )

115/35 : حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے منقول ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! کیا میں تمھیں وہ چیز نہ بتاؤں جس کے ذریعہ درجات کو بلند کیا جاتا ہے ” ؟ صحابہ کرام نے فرمایا ! ضرور بتائیے گا یا رسول اللہ ! فرمایا ! جس شخص نے تم پر جہالت کی ہے اس کے تعلق سے بردباری سے کام لو ، جس نے تم پر ظلم کیا ہو اس کو معاف کر دو ، جس نے تجھے محروم رکھا ہے اس کو عطا کرو اور جس نے تمھیں کاٹا ہے ( تمہاری رشتہ داری کو کاٹا ہے ) اس سے جڑ جاؤ ” ( بزار ، طبرانی ، مگر انھوں ( بزار ) نے اپنی حدیث کے آغاز میں ان الفاظ ” کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں ؟ جس کے ذریعہ اللہ عمارتوں کو بلند فرماتا ہے اور اس کے ذریعہ درجات کو بلند فرماتا ہے ” کی زیادتی کی ہے ، پھر ساری حدیث بیان کی ہے .

گیارہویں قسط

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے انہوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” کیا میں تمہیں دنیا اور آخرت کے سب سے مکرم اخلاق نہ بتاؤں ؟ ( پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” تم اس شخص ( کی رشتہ داری ) سے جڑ جاؤ گے جس نے تم ( تمہاری رشتہ داری ) کو کاٹا ہے اور اس شخص کو عطا کرو گے جس نے تمہیں محروم کیا ہے اور اس شخص کو معاف کرو گے جس نے تم پر ظلم کیا ہے ” ( اس حدیث کو طبرانی نے اوسط میں حارث اعور سے روایت کیا ہے ) .

116/36 : صلہ رحمی کو جوڑ کر رکھنے والے کو اس کا ثواب خیر کی شکل میں بہت جلد ملتا ہے اور اس کو توڑنے والے کو اس کا عذاب برائی کی شکل میں بہت جلد ملتا ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے پتہ چلتا ہے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! ” ثواب کی حیثیت سے حاصل ہونے والی سب سے تیز بھلائی نیکی اور صلہ رحمی ہے . اور سزا کی حیثیت سے سب سے جلد حاصل ہونے والی برائی ظلم اور رشتہ داری کو توڑنا ہے ” ( ابن ماجہ )

117/37 : حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” کوئی گناہ ایسا نہیں کہ اللہ اس کے کرنے والے کو دنیا میں جلد سزا پانے کا مستحق سمجھتا ہو اس ( گنہگار ) کے آخرت میں ( گناہ کے ) ذخیرہ اندوزی کے ساتھ ظلم کرنے اور رشتہ داری کو توڑنے کے “

118/38 : ہر جمعرات میں شب جمعہ کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پاس لوگوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں لیکن ان میں سے رشتہ داروں کے تعلقات کو توڑنے والے کے اعمال کو قبول نہیں کیا جاتا جیسا کہ درج ذیل ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول حدیث سے معلوم ہوتا ہے وہ کہتے ہیں ” رضی اللہ عنہ ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے ! ” پِسرانِ آدم کے اعمال کو ہر جمعرات ( کی ) شب جمعہ کو پیش کیا جاتاہے ( بقیہ لوگوں کے اعمال تو مقبول ہوتے ہیں لیکن ) رشتہ داری توڑنے والے کے اعمال قبول نہیں کئے جاتے ” ( احمد ، اس حدیث کے راوی بھروسے والے ہیں ) .

بہشت میں داخل ہونے کے لئے ایمانِ خالص کے ساتھ ساتھ اچھے اعمال ضروری ہیں ، جن کے اعمال اچھے ہوں اور ساتھ ساتھ ان کے اخلاق اور معاملات بھی تو ان لوگوں کا بہشت میں جانا طے ہے لیکن جن کے معاملات دوسروں کے ساتھ اچھے نہ ہوں خصوصا رشتہ داروں کے ساتھ اور ہر وقت اس فکر میں رہتا ہو کہ رشتہ داروں کو کیسے ستایا جائے تو ایسے لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے اور ان کو ہزار سال کے برابر کے سفر والی مسافت سے ہی جنت کی خوشبو کو سونگھ کر للچانا ہوگا جیسا کہ نیچے آنے والی احادیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے .

119/39 : حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” تین ( قسم کے ) لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے ، شراب نوشی کا عادی ( شراب میں دھت رہنے والا ) رشتہ کو توڑنے والا اور جادو کرنے کی تصدیق کرنے والا ” ( ابن حبان وغیرہ ) .

120/40 : حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا ! ” جنت میں توڑنے والا نہیں جایئگا ” حضرت سفیان کہتے ہیں یعنی رشتہ کو کاٹنے والا ۔ ( بخاری، مسلم ، ترمذی ) .

121/41 : حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس اس حالت میں تشریف لائے کہ ہم اکہٹے ہوکر بیٹھے ہوئے تھے ، فرمایا ! اے گروہ مسلمانان ! اللہ سے ڈرو اور اپنے رشتوں کو جوڑے ہوئے رکھو اس لئے کہ صلہ رحمی سے زیادہ تیزی سے حاصل ہونے والے کوئی اور ثواب نہیں ( کیونکہ دنیا میں صلہ رحمی کو جوڑے رکھنے والے کے لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ جلد ہی خیر سے نوازتا ہے اور اس کے توڑنے والے کو جلدی سزا دیتا ہے ) اور میں تمہیں ظلم کرنے سے ڈراتا ہوں ،اس لئے کہ ظلم کی سزا سے زیادہ تیزی سے کسی اور چیز کی سزا نہیں دی جاتی ، ( اس لئے کہ مظلوم کی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے ، کیونکہ اس کی دعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہتا ) اور میں تمہیں والدین کی نافرمانی کرنے سے ڈراتا ہوں اس لئے کہ جنت کی خوشبو تو ہزار سال کی مسافت سے ہی پائی جاتی ہے ( مگر ) خدا کی قسم ! اس کو ( والدین کا ) نافرمان نہیں سونگھ پائے گا ، نہ رشتہ کو توڑنے والا اور نہ ہی اپنے تہبند کو گھمنڈ سے کھینچنے والا ، جز ایں نیست کہ کبریاء ( بڑائی ) تو اللہ رب العلمین ہی کے لئے ( خاص ) ہے “

بارہویں قسط

رشتہ کو توڑنے والا جنتی ہونا تو دور کی بات ، وہ جنت کی تازہ تازہ اور خوشگوار خوشبو تک کو نہیں پانے کی مناسبت سے چند احادیث ذیل میں درج کی جا رہی ہیں ۔

122/42 : حضرت اعمش رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ( نماز ) صبح کے بعدحلقہ میں تشریف فرما تھے ، کہنے لگے ! ” میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں ، رشتہ کو کاٹنے والا ہمارے پاس سے کبھی نہیں اٹھے گا ، ہم اپنے پروردگار سے دعا کرنا چاہتے ہیں اور یقینا آسمان کے دروازے بند کئے گئے ہیں ، رحم کو کاٹنے والے کے علاوہ ” ۔ ( مفہوم : یعنی چاہئے کہ قاطع رحم ہمارے درمیان سے اٹھ جائے تاکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہماری دعا قبول فرمائے ، جب وہ ہمارے درمیان رہے گا تو ہمارے ساتھ دعا کریے گا اور اس کی وجہ سے اللہ ہماری دعا قبول نہیں فرمائے گا ،اس لئے کہ قاطع رحم کی دعا مقبول نہیں ہوتی ہے اور بلا شبہ جب تک وہ ہمارے درمیان رہے گا تب تک وہ ہماری دعاؤں کے درمیان ایک دیوار کی طرح حائل ہوگا ) ( طبرانی ، اور طبرانی کے راوی ایسے معتمد ہیں کہ جن سے صحیح احادیث میں استدلال کیا جاتا ہے ، مگر یہ کہ اعمش نے ابن مسعود کو نہیں پایا ہے ” ایسے میں اثر منقطع ہوگا ” ) .

123/43 : حضرت عبداللہ بن اوفی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، تبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! ” آج کے دن ہمارے ساتھ کوئی رشتہ داری کو کاٹنے والا نہ بیٹھے ” تب ( یہ سن کر ) ایک نوجوان حلقہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی خالہ کے پاس آیا ، ان دونوں کے درمیان کوئی بات تھی ( کسی قسم کا کوئی اختلاف تھا ) اس نے ان سے معافی طلب کی اور انھوں نے بھی اس سے ، پھر وہ ( نوجوان ) مجلس میں لوٹا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” بلا شبہ رحمت اس قوم پر نازل نہیں ہوتی جن میں کوئی رشتہ توڑنے والا رہتا ہے ” . ( اصبھانی )

124/44 : امام طبرانی نے مختصرا حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” ( رحمت کے ) فرشتے اس قوم پر نہیں اترتے جن میں کوئی رشتہ کو توڑنے والا رہتا ہو ” .

اب نافرمان اولاد کی چند وہ حدیثیں پیش کی جارہی ہیں جن میں نافرمان اولاد کے لئے بہت ڈانٹ ڈپٹ اور وعیدیں آئی ہیں ۔

125/45 : حضرت عمرو بن مرہ الجہنی رضی اللہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کرنے لگا یارسول اللہ ! صلی اللہ علیہ و سلم میں لاالہ الا اللہ اور آپ کے لئے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہوں ، پانچ نمازیں پڑھتا ہوں ، اپنے مال کی زکوٰۃ دیتا ہوں اور رمضان کے روزے ( بھی ) رکھتا ہوں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” جو شخص اس ( عمل ) پر انتقال کر جائے تو وہ اسی طرح روز قیامت میں انبیاء ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دو انگشت ( مبارک ) اٹھائیں جبکہ وہ اپنے والدین کا نافرمان نہ ہو ” ( احمد،اور طبرانی نے اس حدیٹ کو دو سندوں سے روایت کیا ہے جن میں سے ایک صحیح ہے اور ابن خزیمہ اور ابن حبان نے بھی اپنی اپنی صحیح میں اس حدیث کو اختصار کے ساتھ روایت کیا ہے ) .

127/47 : حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” بے شک اللہ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کو حرام ٹھہرایا اور لڑکیوں کو درگور کرنے اور بخل اور سوال کرنے سے اور تمہارے لئے قیل قال ( اس نے ایسا کیا ، اس نے ایسا کیا ) کو اور بہت زیادہ سوال کرنے اور مال کے ضایع کرنے کو ناپسند فرمایا ” ( بخاری و مسلم ) .

128/48 : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور کہا یہ شعبان کی نصف شب ہے اللہ کے لئے اس ( شب ) میں ( قبیلہ ) کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر آگ ( جہنم ) سے آزاد ہونے والے ہیں ( کثرت سے جہنم سے آزاد ہونے سے کنایہ ہے ، کیونکہ انکی بکریاں اور قبیلوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ تھیں ) جس ( شب ) میں وہ کسی مشرک کی طرف ( نظر رحمت سے ) نہیں دیکھتا ، نہ کسی بغض رکھنے والے کی طرف ، نہ کسی رشتہ داری کو توڑنے والے کی طرف اور نہ ہی تکبر سے شلوار کو ( ٹخنوں سے نیچے پہن کر ) لٹکانے والے کی طرف ، نہ ہی اپنے والدین کی نافرمانی کرنے والے کی طرف اور نہ ہی کسی شراب میں دھت رہنے والے کی طرف ” . ( بیہقی )

129/49 : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے دس کلمات کی وصیت فرمائی ، فرمایا ! ” تم اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو اگر چہ کہ تمھیں جان سے مار ڈالا جائے اور اگر چہ کہ تمھیں جلایا جائے اور تم اپنے والدین کی ہرگز نافرمانی نہیں کرو گے اگر چہ کہ وہ دونوں تمہیں اپنے اہل ( بیوی کے پاس سے نکلنے ، طلاق دینے ) اور اپنے مال ( چھوڑ کر ) سے نکل جانے کا حکم دیں ” . ( احمد وغیرہ ) .

تیرہویں قسط

رشتہ ناطہ کو جوڑے رکھنے اور والدین کی نافرمانی سے بچنے سے متعلق چند احادیث .

 130/50 : حضرت درہ بنت ابولہب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا ! یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ و سلم ! لوگوں میں سب سے بہترین شخص کونسا ہے ؟ فرمایا ! ” ان میں سب سے زیادہ رب سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ رشتہ داری کو جوڑے رکھنے والا ، انھیں اچھے کاموں کا حکم دینے والا اور انھیں برائیوں سے روکنے وا لا ” ( اس حدیث کو ابوشیخ ابن حبان نے ” کتاب الثواب ” میں اور بیہقی نے ” کتاب الزہد ” میں اور ان کے علاوہ نے بھی روایت کیا ہے ۔

صلہ رحمی گھروں کو آباد کرتی ہے اور عمر میں زیادتی جیسا کہ :

131/51 : اماں سیدہ صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا ! ” بیشک جس شخص کو مہربانی ( رحم ، نرمی ) عطا کی جاتی ہے اس کو دنیا اور آخرت کی بھلائی کا ( ایک ) حصہ عطا کیا جاتا ہے اور صلہ رحمی ، پڑوسی کے ساتھ اچھی طرح سے رہنا ، یا اچھے اخلاق ، ملکوں کو آباد کرتے ہیں ( قائم رکھتے ہیں اس لئے کہ یہ دونوں چیزیں انسان کو برائی سے دور لے جاتی ہیں ، لوگوں میں اس کو محبوب بناتی ہیں اورمسلمانوں کے درمیان محبت پھیلاتی ہیں ) اور عمروں میں زیادتی کرتی ہیں ” ( امام احمد نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ، اس کے رواۃ ثقات ہیں ، مگر عبدالرحمن بن قاسم نے عائشہ سے نہیں سنا ہے ) .

حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” تمام گناہوں میں سے جن گناہوں کو اللہ چاہتا ہے اس کو بخش دیتا ہے سوائے والدین کی نافرمانی کے ایسے شخص کو اللہ ( سبحانہ و تعالیٰ ) زندگی ہی میں موت سے پہلے (سزا دینے میں ) جلدی کرتا ہے ” ( امام بیہقی نے اس حدیث کو شعب ایمان میں روایت کیا ہے ) اسی حدیث کو امام حاکم نے کچھ ہی ردوبدل کے ساتھ روایت کیا ہے یعنی امام حاکم نے مغفرت کرتا ہے کی جگہ میں ” دیری کرتا ہے ” کے الفاظ سے روایت کیا ہے . حدیث ملاحظہ ہو .

132/52 : حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کردہ حدیث میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” تمام گناہوں میں سے جس گناہ ( کی سزا ) کو اللہ چاہتا ہے اس کو روز قیامت تک مؤخر کرکے رکھتا ہے سوائے والدین کی نافرمانی کے کہ بلاشبہ اللہ اس کو زندگی ہی میں مرنے سے پہلے ( سزا دینے ) میں جلدی کرتا ہے ” ( اس حدیث کو حاکم اور اصبھانی دونوں ہی نے بکار بن عبدالعزیز کے طریق سے روایت کیا ہے اور حاکم نے کہا کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہے ) .

133/53 : اولاد اگر نافرمان ہو اور والدین میں سے کوئی ان سے ناراض ہو ، تو مرتے وقت ان کو کلمہ تک نصیب نہیں ہوگا ، خواہ وہ کتنے ہی عبادت گزار کیوں نہ ہوں ، اگر اسی حالت میں ان کا انتقال ہو جائے تو اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہو سکتا ہے ، جیساکہ مندرجہ ذیل حضرت عبداللہ بن ابو اوفی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھے ، تبھی ایک آنے والا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا کہ ایک شخص اپنے آپ کو موت کے لئے بغیر کسی ناپسندیدگی کے پیش کر رہا ہے ( یعنی اس کے اعمال اچھے ہیں ، جس سے اس کو مرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے ) اس سے ” لاالہ الا اللہ ” پڑھنے کے لئے کہا گیا ، پر وہ اس کو بولنے کی قدرت ( اپنے میں ) نہیں پا رہا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا ! ” وہ نماز پڑھتا تھا ؟ ” اس ( آنے والے ) نے کہا ! ہاں ، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اٹھ گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اٹھے اور نوجوان کے پاس گئے اور اس سے فرمایا ! ” لاالہ الا اللہ ، کہو ” اس نے کہا ! مجھے اس کی طاقت نہیں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت کیا ! کیوں؟ اس ( آنے والے ) نے کہا کہ وہ اپنی والدہ کی نافرمانی کیا کرتا تھا ، آپ نے پوچھا ! ” کیا اس کی والدہ ز ندہ ہیں ؟ ” ( صحابہ ) کہنے لگے ! ہاں ، فرمایا ! ” اس کو بلاؤ ، صحابہ نے انھیں بلایا ، تو وہ آئیں ، آپ نے ان سے پوچھا ! ” یہ تمہارا بیٹا ہے ؟ ” کہا ! ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا ! ” تم مجھے بتاؤ ، اگر ایک بڑی سی آگ کو دہکایا ( بھڑکایا ) جائے ، پھر تم سے کہا جائے کہ اگر تم اس کی سفارش کروگی تو ہم اس کو چھوڑ دیں گے ، ورنہ اس آگ سے ہم اس کو جلائیں گے ، تب کیا تم اس کے حق میں سفارش کرو گی ؟ ” اس ( بوڑھیا صحابیہ ) نے کہا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ و سلم ! تب میں اس کی سفارش کروں گی ، فرمایا ! ” اللہ کو اور مجھ کو گواہ بناؤ کہ میں اس سے راضی ہوں ” کہنے لگی ! اے اللہ ! بیشک میں تجھے اور تیرے رسول کو گواہ بناتی ہوں کہ میں اپنے فرزند سے راضی ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ( لڑکے ) سے کہا ! ” اے لڑکے ! لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ کہہ ” اس نے اس کو کہا ، ( لڑکے کی زبان سے کلمہ جاری ہوا ) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” تمام تعریفیں اس اللہ ( سبحانہ و تعالیٰ ) کے لئے ہیں جس نے میرے وسیلہ سے اس کو آگ ( جہنم ) سے نجات دلائی ” ( طبرانی و احمد ) ( حدیث میں صحابی کا نام نہیں آیا ہے غالباً یہ عکاشہ رضی اللہ عنہ ہیں ، جیسا کہ واقعہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے . ( واللہ اعلم ) .

چودہویں قسط 

بات ہو رہی ہے رشتوں کو سنبھال کر لے جانے اور ماں باپ کی فرمانبرداری میں اپنے آپ کو ہر وقت تیار رکھنے کی ، کیونکہ ایسا شخص نہ ہی رب العزت کی بہشت میں داخل ہوکر وہاں کی نعمتوں سے سرفراز ہوگا اور نہ ہی وہ جنت کی گوناگوں قسموں کی مختلف الانواع کی ماکولات ومشروبات سے محظوظ ہوگا ، ہائے رے اس شخص کی قسمت جس کو نا تو بہشت ملے گی اور نا ہی وہاں کی نعمتیں ، بلکہ رشتوں ناطوں کی اہمیت کو بالائے طاق رکھنے اور اپنے والدین کے آگے اپنے رحم وشفقت کے بازوؤں کو پھیلا کر انہیں راحت و آرام ، سکون وچین اور خدمت نہ کرنے کی وجہ سے اس کو قسم قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا ، جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث ہمیں بتاتی ہیں ۔

رشتوں کو توڑنے والوں کا انجام شرابیوں ، ریشمی لباس پہننے والوں ، گانے والیوں کی محفلیں منعقد کرنے والوں اور سود کھانے والوں جیسا بڑا ہی بھیانک ہوگا ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس طرح پتھروں کی بارش برسائے گا جس طرح اس نے لوط علیہ الصلوۃ والسلام کی قوم پر برسائے تھے اور ان پر اس طرح کی تیز و تند ہوا کا طوفان لائے گا ، جس طرح کے طوفان نے دنیا کی طاقتور ترین قوم ” قوم ھود ” علیہ الصلوۃ والسلام کے قدم اکھاڑ پھینکے تھے اور اسے نیست و نابود کر دیا تھا ( اللھم احفظنا )

134/54 : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” اس امت کی ایک قوم کھانے ، پینے اور لہو لعب ( بیکار کھیل کود ) میں شب باشی کرے گی ، سو وہ ایسی حالت میں صبح کرے گی کہ ان کو مسخ ( شکل و صورت تبدیل ) کر کے بندر اور سور بنایا جائے گا ( اللہ ہماری حفاظت فرمائے . حال ہی میں ہم نے غالبا ایک ایسی شکل وصورت کے گورے شخص ( انگریز ) کو دیکھا جس کی شکل تو آدمی کی تھی لیکن اس کے بعد والی اس کی پوری صورت سور کی تھی حتی کہ پیچھے دم بھی تھی . واقعی اگر وہ واقعہ سچا ہو تو کیا ہم نہ سمجھیں کہ اس قسم کے نزول عذاب کا آغاز ہو چکا ہے ؟ ) اور البتہ انھیں زمین میں دھنسنے اور سنگباری جھیلنے کا سامنا کرنا پڑے گا حتی کہ لوگ صبح کرنے کے بعد کہنے لگیں گے رات میں فلاں قبیلہ کو زمیں دوز کیا گیا اور فلاں کے گھر کو خاص کرکے زمین میں دھنسایا گیا اور البتہ ان پر آسمان سے اسی طرح سنگباری کی جائے گی جیسی قوم لوط کے قبیلوں اور گھروں پر کی گئی تھی اور یقینا ان پر وہ بےخیر ہوا ( پچھوا ہوا ، پچھم کی طرف سے آنے والی ہوا ، جو عربی میں دبور کہلاتی ہے ، جس میں کسی قسم کی کوئی بھلائی نہیں رہتی کیونکہ یہ ہوا نہ تو بارش کو لئے ہوئے ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں نر کھجور کے شگوفے نکلتے ہیں جن کو مادہ کھجور کے درختوں میں ڈالاجاتا ہے ) بھیجی جائے گی جس نے عاد کے قبائل اور ان کے گھروں کو ، ان کی شراب نوشی ، ان کے ریشمی لباس پہننے ، ان کے گانے والیوں کے اپنانے ، ان کے سود کھانے اور ان کے رشتوں کے کاٹنے کے سبب سے انھیں ہلاک کیا تھا ” اور اس حدیث میں ایک اور عادت کا بھی ذکر کیا گیا تھا ، جس کو ( راوی ) جعفر بھول گئے ہیں) . ( اس حدیث کو امام احمد نے مختصراً ، ابن ابودنیا اور بیہقی نے روایت کیا ہے ) .

135/55 : والدین کا فرمان نہ ماننا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے ، جیسا کہ درج ذیل آنے والی بہت ساری احادیث سے معلوم ہوتا ہے ، حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” کیا میں تمھیں بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کلمہ کو تین مرتبہ فرمایا ( ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب کسی چیز کی بڑی اہمیت یا کسی چیز کا بڑا خوف ہو ) ہم نے کہا ، ہاں ( کیوں نہیں ؟ ) یا رسول اللہ ! فرمایا ! ” اللہ کے ساتھ ( کسی چیز کو ) شریک ٹہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ” آپ صلی اللہ علیہ و سلم سہارا لیکر بیٹھے ہوئے تھے ، پہر فرمایا ! ” سنو اور جھوٹ کہنا یا جھوٹی گواہی دینا ” آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو دہراتے ہی رہے حتی کہ ہم کہنے لگے ! کاش کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش ہو جاتے ۔ ( بخاری ، مسلم ، ترمذی ) .

136/56 : حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” کبائر ( بڑے گناہ ) اللہ کے ساتھ شریک کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا ، کسی شخص کو قتل کرنا ( جان سے مارڈالنا ) اور ڈبونے والی قسم کھانا ہے ” ( یعنی جھوٹی قسم کھانا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ” الیمین الغموس ” فرمایا ہے ، کیونکہ جھوٹی قسم کھانے والے کو یہ قسم جھنم میں ڈوبائے گی ) . ( بخاری ) .

پندرہویں قسط

137/57 : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بڑے گناہوں کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” (بڑے گناہ ) اللہ کے ساتھ شریک ٹہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے ” ( بخاری ، مسلم ، ترمذی )

138/58 : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل یمن کے لئے لکھے ہوئے خط میں جس کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرو بن حزم کے ہاتھوں بھیجا تھا ، فرمایا تھا ! ” بیشک اللہ کے پاس روز قیامت میں بڑے گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ ( کسی کو ) شریک کرنا ، بغیر حق کے کسی مؤمن ذات کو جان سے مار ڈالنا ، اللہ کے راستہ میں دشمنوں سے لڑنے کے وقت بھاگنا ، والدین کی نافرمانی کرنا ، پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا ، جادو سیکھنا ، سود کا مال کھانا اور یتیم کا مال کھانا ہے ” . ( ابن حبان نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو روایت کیا ہے )

139/59 : نافرمان اولاد پر جنت حرام ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! ” تین لوگ ایسے ہوں گے جن کی طرف روز قیامت ، اللہ ( نظر رحمت سے ) نہیں دیکھے گا ، اپنے والدین کا نافرمان ، شراب نوشی میں مست رہنے والا اور کچھ دے کر احسان جتلانے والا اور تین لوگ بہشت میں داخل نہیں ہوں گے ، اپنے والدین کی نافرمان اولاد ، اپنے اہل ( خانہ ) کے پاس ان کے جاننے کے باوجود زنا کا اقرار کرنے والا اور مردوں کی شباہت اپنانے والی عورت ” ( نسائی اور بزار نے اس حدیث کو دو جید سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے ، الفاظ بزار کے ہیں اور حاکم نے روایت کرکے صحیح الاسناد کہا ہے اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں اس کا ابتدائی حصہ نقل کیا ہے )

140/60 : حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” تین ( لوگ ایسے ہیں ) کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر جنت کو حرام ٹہرایا ہے ، شراب میں دھت رہنے والا ، ( والدین کا ) نافرمان اور وہ دیوث ( اپنے رشتہ داروں کے سامنے ان کو معلوم رہنے کے باوجود زنا کا اقرار کرنے والا ) جو برائی ( زنا ) کا اپنے اہل خانہ کے پاس اقرار کرتا ہو ” . ( احمد اور الفاظ انہی کے ہیں ، نسائی ، بزار اور حاکم نے ، اور انہوں نے اس حدیث کو صحیح الاسناد کہا ہے )

141/61 : امام طبرانی کی اوسط میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کردہ حدیث میں گذرا کہ جنت کی خوشبو ہزار سال کی مسافت سے ہی سونگھی جاسکتی ہے لیکن چند لوگ اس سے محروم رہیں گے جن میں والدین کا نافرمان بھی شامل ہے ، نیچے دی جانے والی انکی صغیر میں روایت کردہ حدیث میں اور چند قسم کے لوگوں کا ذکر آیا ہے جو جنت کی خوشبو سونگھنے سے محروم ہوں گے جن میں ایک والدین کی نافرمان اولاد بھی ہے لیکن اس حدیث میں پانچ سو سال کی دوری بتائی گئ ہے . حدیث ملاحظہ ہو ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” جنت کی خوشبو کو پانچ سو سال کی مسافت سے ہی سونگھا جائے گا ، پر اس کو کام کرکے احسان جتانے والا ، والدین کا نافرمان اور شراب نوشی میں مست رہنے والا نہیں سونگھ پائے گا ” . ( امام طبرانی نے اس حدیث کو صغیر میں روایت کیا ہے ) تو چھ قسم کے لوگ بہشت کی خوشبو کا مزہ دور سے ( اور نہ ہی قریب سے ) حاصل کر پائیں گے ایک والدین کا نافرمان ، دوسرا رشتہ داری کو توڑنے والا ، تیسرا زنا کرنے والا بوڑھا ، چوتھا گھمنڈ سے اپنا تہبند یاسروال کو کھینچنے والا ، پانچواں کوئی احسان کرکے اس کو جتانے والا ، چھٹا شراب نوشی میں مست رہنے والا ۔

142/62 : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” چارلوگوں کے تیں اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ انھیں نہ تو جنت میں داخل کرے اور نہ ہی وہ انھیں اس کی نعمتوں کے مزہ سے سرفراز فرمائے ، شراب نوشی میں مست رہنے والا ، سود کھانے والا ، بغیر حق کے یتیم کا مال کھانے والا اور اپنے والدین کا نافرمان ” . ( حاکم نے اسے روایت کر کے صحیح السند کہا ہے )

143/63 : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! ” تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے ساتھ کوئی عمل فائدہ نہیں دیتا ، اللہ کے ساتھ شریک ٹہرانا ، والدین کی نافرمانی کرنا اور میدان جنگ سے بھاگنا ” . ( اس حدیث کو طبرانی نے کبیر میں نقل کیا ہے ) .

سولہویں قسط

والدین کی نافرمان اولاد ، ان کی سزا اور رشتوں کے توڑے جانے کے باوجود جوڑے رکھنے کے سلسلہ میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں .

144/64 : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے بھلائی کی چند عادتیں ( کام ) کرنے کی وصیت فرمائی ، آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے وصیت فرمائی کہ ” میں اپنے سے اوپر ( دولت مند ) کو نہ دیکھ کر اپنے سے نیچے والے کو دیکھوں ، ( کیونکہ اپنے سے زیادہ مالدار شخص کی طرف دیکھنے پر آدمی کے اندر حسرت اور لالچ پیدا ہوتی ہے ، ایسے میں وہ اللہ عزوجل کی لاتعداد نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے وقت نہیں نکال سکتا اور اس کے دل میں ہمیشہ یہ کڑہن رہتی ہے کہ کاش فلاں کی طرح میں بھی مالدار ہوتا ) اور مجھے اس بات کی وصیت فرمائی کہ میں مساکین سے محبت کروں اور ان سے قریب رہوں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اس بات کی ( بھی ) وصیت کی کہ میں اپنے رشتہ داروں کے رشتہ کو جوڑ کر رکھوں ، اگر چہ کہ وہ پلٹ جائیں ( رشتہ داری کو توڑدیں ) اور اس بات کی ( وصیت کی ) کہ میں اللہ کے سلسلہ میں (حق بات کہنے میں ) کسی ملامت کرنے والے کی ملامت ( کسی کے کوسنے ) پر نہ ڈروں اور اس بات کی کہ میں حق بات ہی کہوں اگر چہ کہ کڑوی ہو اور مجھے اس بات کی ( وصیت فرمائی ) کہ میں کٹرت سے ” لا حول ولا قوة الا باللہ ” کہوں ، اس لئے کہ وہ جنت کے مدفون خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ” ( طبرانی اور ابن حبان نے اسے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے اور الفاظ انہی کے ہیں ) .

ایک نافرمان شخص کا انتقال ہوتا ہے وہ شرابی تھا ، اس کی ماں ( رضی اللہ عنھا ) اس کو وصیت کرتی کہ بیٹا ! اللہ سے ڈرو اور شراب نوشی سے باز آؤ ، بیٹا اس کو جھڑک کر کہتا ! کیوں گدھے کی طرح ڈھینچتی ہو ، مرنے کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کو ڈھینچنے کی ہی سزا دی ، اس انتہائی سبق آموز حدیث کو پڑھیں اور اس سے سبق حاصل کریں .

135/65 : حضرت عوام بن حوشب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ ایک قبیلہ کا مہمان بنا ، اس قبیلہ کے پہلو میں ایک قبرستان تھا ، جب عصر کے بعد والا وقت ہوا تو قبرستان کی ایک قبر پھٹ گئ اور اس میں سے ایک گدھے کے سر اور انسان کی شکل والا مرد نکلا اور گدھے کی آواز جیسی تین آوازیں نکالیں ، پھر اس پر قبر بند ہوگئ ، تب ایک بڑھیا بال یا اون کاتتی نظر آئی ، ایک عورت نے کہا کہ اس بوڑھیا کو دیکھ رہے ہو ؟ میں نے پوچھا ! ( کیوں ؟ ) اسے کیا ہوگیا ؟ کہنے لگی کہ وہی اس ( مرد ) کی ماں ہے ، میں نے پوچھا ! اس کا کیا قصہ ہے ؟ کہنے لگی کہ اس کی شراب نوشی کی عادت تھی ، جب وہ شراب پینے لگتا تو اس کی ماں اس سے کہتی کہ میرے بیٹے ! اللہ سے خوف کھا ، کب تک تو یہ شراب نوشی کرتا رہے گا ؟ وہ اس سے کہتا کہ تم تو اسی طرح ڈھینچتی ہو جیسے گدھا ڈھینچتا ہے ، عورت کہتی ہے کہ پھر ( ایک دن ) وہ عصر کے بعد مرگیا ، سو ہر دن اس کی قبر عصر کے بعد پھٹتی ( کھلتی ) ہے اور وہ تین مرتبہ ڈھینچتا ہے ، پھر قبر بند ہوجاتی ہے ” ( اصبہانی وغیرہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ، اصبہانی کہتے ہیں کہ ابوالعباس الاصم نے اس حدیث کو حفاظ کی موجودگی میں نیساپور میں پڑھا تو انھوں نے اس حدیث کا انکار نہیں کیا ) .

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جب آیت کریمہ ” و انذر عشیرتک الاقربین ” اور اپنے قبیلہ کے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا ، ( سورۃ الشعراء/214 ) آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قریش کو بلایا ، سو عام و خاص تمام قریش کا خاندان جمع ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” اے بنو عبد شمس ، اے بنو کعب بن لؤی ، خود کو آگ سے بچاؤ ، اے بنو مرہ بن کعب ! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ ، اے بنو عبد مناف ! خود کو آگ ( جہنم ) سے بچاؤ ، اے بنو ہاشم ! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ ، اے بنو عبد مطلب ! اپنوں کو آگ سے بچاؤ ، اے فاطمہ ! خود کو آگ سے بچالے ، اس لئے کہ میں اللہ کی جانب سے تمہارے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں گا سوائے اس کے کہ تمہاری رشتہ داری کو میں پانی سے تھنڈا کرتے رہوں گا ” ( مسلم ) حدیث کا معنی یہ ہے کہ میں رشتہ داری کو جوڑے ہوئے ہی رکھوں گا .

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتہ داری کے کاٹنے کو اس گرمی سے شباہت دی جس کو پانی سے بجھایا جاتا ہے اور یہ رشتہ داری جڑے رہنے کے ذریعہ تھنڈی پڑتی ہے .

147/67 : حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت کردہ حدیث میں آتا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بآواز بلند ، نہ کہ آہستہ سے ، یہ کہتے ہوئے سنا ! کہ ” فلاں قبیلہ والے میرے دوست نہیں ہیں ، میرا تو اللہ اور صالح مؤمنین دوست ہیں ، لیکن میری ان ( قبیلہ والوں ) سے رشتہ داری ہے جس کو میں تھنڈا کرتا رہتا ہوں ” ( متفق علیہ ، الفاظ بخاری کے ہیں ) .

سترہویں قسط

یہ بات طے ہے کہ والدین کی فرمانبردار اولاد جنت میں داخل ہوگی اور نافرمان جہنم میں . اب اگر کسی بدنصیب اولاد نے والدین کی ان کی زندگی میں خدمت نہ کرکے خود کو جنت کا مستحق نہ بنایا تو کیا اس کے پاس اپنے والدین کو خوش کرنے کا کوئی موقعہ ہے ؟؟ ہاں ! اس کے پاس ایک حسین موقعہ ہے کہ وہ اپنے والدین کے لئے دعائیں کرے ، ان کے واسطہ مغفرت طلب کرے اور ان کے دوستوں اور سہیلیوں کا اکرام و عزت کرے .

148/68 : جیسا کہ ابو اسید مالک بن ربیعہ الساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہمیں بتاتی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تبھی( قبیلہ) بنو سلمہ کا ایک شخص آیا اور عرض کرنے لگا ! یارسول اللہ ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا میرے والدین کے مر جانے کے بعد کوئی ایسی نیکی باقی رہ جاتی ہے جس کو میں ان دونوں کے لئے کروں ؟ فرمایا ! ہاں ! ان دونوں کے لئے دعائیں کرنا ، ان کے لئے مغفرت طلب کرنا ، ان دونوں کے ( انتقال کر جانے کے ) بعد ان دونوں کے وعدوں کو پورا کرنا ، ان دونوں کی اس صلہ رحمی کو جوڑے رکھنا جسکو ان دونوں کے علاوہ نہیں جوڑا جاسکتا اور ان دونوں کے دوستوں کی عزت کرنا ” ( ابوداؤد ، ابن ماجہ اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ( ابن حبان نے ) حدیث کے آخر میں کہا ! یارسول ! ( صلی اللہ علیہ و سلم ) یہ کتنا زیادہ اور کتنا اچھا ہے ، فرمایا ! ” اس کو کر لو ” گوکہ اس حدیث میں ایسی کوئی واضح بات نہیں آئی ہے کہ اس سے نافرمان اولاد کے والدین راضی ہوسکتے ہیں اور نہ ہی یہ نافرمان اولاد کے ساتھ ہی خاص ہے تاہم ایک امید ہے کہ یہ کام کرنے پر اس کے والدین اس سے راضی ہو جائیں ۔

149/69 : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی گئی ہے ، انھوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کرنے لگا ! میں نے بہت بڑا گناہ کیا ہے ، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا ! ” کیا تمھاری ماں ( باحیات ) ہیں ؟ ” انھوں نے کہا ! نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” کیا تمہاری کوئی خالہ ہیں ؟ ” انھوں نے کہا ! ہاں ! فرمایا ! ” ان کی فرمانبرداری کرو ” ( کیونکہ وہ والدہ کی بہن ہیں اور ان کے ساتھ نیکی کرنا اور ان کا کہا ماننا ، گویا ماں کا کہا ماننا ہے ) . ( ترمذی اور الفاظِ حدیث انہی کے ہیں . اس حدیث کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے مگر یہ کہ ان دونوں نے ( کیا تمہاری ماں ہے ؟ کی جگہ ) کیا تمہارے والدین دو کے ساتھ روایت کیا ہے ، امام حاکم نے کہا کہ یہ حدیث صحیحین کی شرط پر صحیح ہے ) .

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی بڑا گناہ کیوں نہ کرے ، والدین یا والدین کی جگہ میں ان کے بھائی بہنوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کا کہا ماننے پر اس کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں . واللہ اعلم ۔

دودھ پلائی ہوئی ماں کا اکرام کرنا بھی ضروری ہے 

150/70 : حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو جعرانہ ( ایک جگہ کا نام ) میں گوشت تقسیم کرتے ہوئے دیکھا ، تبھی ایک عورت آنے لگی ، حتی کہ وہ آپ کے نزدیک پہونچ گئی ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لئے اپنی چادر بچھائی ، وہ اس پر بیٹھ گئیں ، میں نے پوچھا ! یہ کون ہیں ؟ صحابہ کرام نے کہا ! یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ ماں ہیں جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دودھ پلایا تھا . ( ابوداود ) ( بعضوں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ) .

151/71 : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے منقول ہے ، انھوں نے کہا ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” سب سے بڑی نیکی آدمی کا اپنے باپ کے پلٹ جانے ( انتقال کر جانے ) کے بعد اس ( باپ ) کے چاہنے والوں کے رشتہ کو جوڑ ے رکھنا ہے . ( مسلم )

اٹھارہویں قسط

والدین کے اس دار فانی سے کوچ کر جانے کے بعد ان کے دوستوں اور چاہنے والوں کا خیال رکھنا والدین کی فرمانبرداری میں شامل ہے . اس کی چند مثالیں بشکل حدیث پیش خدمت ہیں .

152/72 : حضرت عبداللہ بن دینار نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ ایک دیہاتی شخص نے آپ ( رضی اللہ عنہ ) سے مکہ ( مکرمہ ) کے راستہ میں ملاقات کی ، عبداللہ بن عمر نے اس کو سلام کیا اور اپنے اس گدھے پر اس کو بٹھالیا جس پر آپ سوار تھے اور اپنا وہ عمامہ ( دستار ) اسے عطا کیا ، جس کو آپ نے زیب سر کیا ہوا تھا ، ابن دینار ( رحمہ اللہ ) کہتے ہیں ک ہم نے آپ سے کہا ! اللہ ( عزوجل ) آپ کی اصلاح فرمائے ، یہ تو دیہاتی لوگ ہیں ( جو عسرت و تنگ دستی کی زندگی گزارنے کے عادی ہیں ) جو تھوڑے پر راضی ہو جاتے ہیں ( ظاہر ہے ، جو پیٹا آپ رضی اللہ عنہ نے لپیٹے رکھا تھا وہ صاف ستھرا اور قیمتی رہا ہوگا ) عبداللہ بن عمر نے کہا کہ اس کا باپ عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ ) کا دوست تھا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ” سب سے بڑی نیکی اولاد کا اپنے باپ کے دوستوں کے رشتہ داروں سے جڑے رہنا ہے ” ( یہ تو ان کے باپ کے دوست کا لڑکا تھا پھر یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ باپ کے دوستوں کے ساتھ کتنا اچھا برتاؤ کرنا چاہئے ) . ( مسلم )

153/73 : ابن دینار ہی کی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کردہ ایک روایت ( اثر ) میں آتا ہے کہ جب آپ مکہ کے لئے روانہ ہوتے اور اونٹنی کا سفر کرتے کرتے اکتا جاتے تو ان کا ایک ( خاص ) گدھا تھا جس پر آپ سوار ہوکر اور ایک ( خاص ) دستار تھی جس کو لپیٹ کر آپ سفر کیا کرتے تھے ، ایک دن آپ اسی طرح سفر کر رہے تھے کہ ایک دیہاتی کا آپ پر سے گذر ہوا ، آپ نے اس سے پوچھا ! کیا تم فلاں کے بیٹے فلاں نہیں ہو ؟ اس نے کہا ! ہاں ! پس آپ نے اسے ( اپنا ) گدھا دیا اور کہا کہ اس پر سوار ہو جاؤ اور اپنی دستار اسے دیتے ہوئے فرمایا ! اسے اپنے سر پر باندھو ، آپ کے کسی ساتھی نے آپ سے کہا کہ اللہ آپ کی مغفرت فرمائے ، آپ نے اس دیہاتی کو وہ گدھا دے دیا جس پر آپ سواری کیا کرتے تھے اور وہ دستار دی جس کو آپ سر پر باندھتے تھے ؟ فرمایا ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ” سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوستوں سے اس کے پلٹ کر ( مر ) جانے کے بعد اس کے رشتہ داروں سے جڑا ہوا رہے ” اور اس کا باپ عمر رضی اللہ عنہ کا دوست تھا . ( مسلم )

154/74 : حضرت ابو فردہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ ( منورہ ) میں آیا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما میرے پاس تشریف لے آئے اور کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں آپ کے پاس کیوں آیا ہوں ؟ کہتے ہیں کہ میں نے کہا ! نہیں ! کہنے لگے ک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے ہوئے سنا ہے کہ ” جو یہ چاہتا ہو کہ اپنے باپ کی قبر میں اس کی رشتہ داری کو جوڑے رکھے ، تو چاہئے کہ وہ اس ( باپ ) کے بعد اپنے باپ کے بھائیوں ( چچاؤں ) کی رشتہ داری سے جڑا رہے اور یہ کہ ابو عمر اور آپ کے باپ کے درمیان رشتہِ اخوت ( برادرانہ تعلق و بھائی چارہ تھا ) اور دوستی تھی ، سو میں نے چاہا کہ اس کو جوڑے رکھوں ” . ( اس حدیث کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے )

155/75 : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے ، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عورتوں ( ازواج مطہرات ) میں سے کسی سے بھی اتنی سہو ( رقابت ) محسوس نہیں کی ، جتنی ( ام المؤمنین ) خدیجہ ( رضی اللہ عنھا ) سے ، انھیں میں نے کبھی دیکھا نہیں تھا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر ان کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور بعض اوقات بکری ذبح فرما کر اس کے ٹکڑے کر کے خدیجہ کی سہیلیوں کے پاس بھیجا کرتے تھے ، کبھی کبھی میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھ بیٹھتی ، گویا خدیجہ کے علاوہ دنیا میں کوئی نہیں ہے ، تو آپ فرمایا کرتے ! ” وہ جیسی بھی تھیں ، تھیں ،( یعنی ان کی بڑی فضیلت ہے ) اور ان سے میری اولاد تھی ” ( معلوم ہو کہ آپ کی تمام اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا ہی سے ہے ، سوائے ابراہیم رضی اللہ عنہ کے کہ وہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنھا کے بطن سے ہیں ) . ( بخاری ، مسلم )

156/76 : ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ” آپ صلی اللہ علیہ و سلم بکری ذبح فرما کر ان کی سہیلیوں میں بھیجتے ، ان میں وہ بھی تھیں جو مال کے اعتبار سے اچھی تھیں ” اور ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بکری ذبح فرما کر کہا کرتے ! ” اس کو خدیجہ کی سہیلیوں کے پاس بھیجو ” ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ خدیجہ کی بہن ہالہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کا اجازت لینا خدیجہ کی اجازت لینے کی طرح محسوس ہوا ( آواز کی شباہت کی وجہ سے ہو سکتا ہے ، یا ہالہ رضی اللہ عنھا کا اجازت لینے کا طریقہ ہو بہو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے طریقہ کی طرح ہونے کی وجہ سے ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ( اجازت ) کا بڑا اہتمام کیا اور فرمایا ! ” اے باری تعالیٰ ( یہ ) خویلد کی بیٹی ہالہ ہے ” حمیدی رحمہ اللہ کی ” الجمع بین الصحیحین ” میں ( ” فارتاح ” کی جگہ میں ) ” فارتاع ” آیا ہے ، جو اہتمام کرنے کے معنی میں ہی ہے .

157/77 : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر پر تھا وہ میری خدمت کر رہے تھے ، میں نے ان سے کہا کہ آپ ایسا نہ کیجئے ، وہ ہم کلام ہوئے کہ میں نے انصار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس طرح کی خدمت کرتے ہوئے دیکھا ہے ، تو میں نے ارادہ کرلیا کہ ان ( انصار ) میں سے جس کسی کے ساتھ بھی میں رہوں گا اس کی خدمت کروں گا ” . ( متفق علیہ ) .

انیسویں قسط

الحمد للہ ، آپ حضرات کے سامنے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے حدیثوں کی ایک معتدبہ تعداد کو چہتر احادیث کی شکل میں بیان کیا جا چکا ہے . ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پر حتی الامکان عمل کرنے کی پوری کوشش کی جائے ، اب آخری حدیثیں بھی اسی ضمن میں آرہی ہیں جو ماں باپ کو چوں وچرا نہ کہنے پر مشتمل ہیں ، چونکہ والدین کا درجہ بہت بڑا ہے ، قرآن مجید کی کافی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بہت ساری احادیث ان کی بزرگی اور اہمیت وفضیلت پر وارد ہوئی ہیں ، اسی طرح جہاں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے اور نرمی و مہربانی سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے ، وہاں ان کے ساتھ غلط رویہ اختیار کرنے ، انھیں دانٹ ڈپٹ کرنے اور گالی دینے وغیرہ سے سختی سے روکا گیا ہے ، آپ نے کیا کہا ؟؟ گالی ؟ ہاں ! گالی، کیا کوئی اپنے والدین کو گالی دینے کی سوچ بھی سکتا ہے ؟؟ یقیناً پہلے ادوار میں اس کے تعلق سے سوچنا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہو اور اس کا ورود بہت ہی شاذ و نادر ہی ہو ، لیکن دور حاضر میں یہ سب کچھ عام ہو گیا ہے ، گالی گلوچ کے ساتھ والدین کو مارا پیٹا جارہا ہے اور آج کل سیکڑوں ایسے ادارے یا گھر وجود میں آئے ہیں جن میں ماں باپ کو دو ، چار یا پانچ ہزار روپئے فیس دے کر انھیں ان میں بھیج دیا جاتا ہے تاکہ ان کی خدمت گذاری سے اولاد کو چھٹکارا ملے ، اور دور جدید میں اس غیر تہذیبی اور قابل مذمت فعل کو ممدوح بنا کر پیش کیا جارہا ہے ، لعنت ہے ایسی اولاد پر ، ان کے والدین نے ان کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا ، بعض اوقات پوری پوری رات ان کی فکر میں بیدار رہ کر گذاری ، ان پر کوئی آنچ نہیں آنے دی اور آج جبکہ ایک بہترین موقعہ والدین کی خدمت اور ان کی فرمانبرداری کا ہاتھ آیا تو اس کو آج کی اولاد بڑی بے شرمی سے اپنے ہاتھوں سے گنوا رہی ہے ،

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہر اولاد کو اپنے والدین کی پوری طرح دل لگا کر خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے . آمین . اس موضوع کی آخری دو حدیثیں پیش خدمت ہیں .

158/78 : حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” بڑے گناہوں میں آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا ( شامل ) ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا ! یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ و سلم ، کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی دے سکتا ہے ؟ فرمایا ! ” ہاں ! ( ایک ) آدمی ( دوسرے ) آدمی کے باپ کو گالی دیتا ہے ( یہ تو عام ہے جو اکثر جاہلوں سے دیکھا جاتا ہے ، لیکن آج کے دور میں براہ راست اپنے والد اور والدہ کو اولاد کو گالی دیتے ہوئے دیکھا جاتا ہے ) تب وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور وہ ( کوئی آدمی ) اس ( دوسرے ) کی ماں کو گالی دیتا ہے ، پھر وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے ” . ( بخاری ، مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی )

159/79 : ایک روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! ” بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ایک آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا اور لعنت بھیجنا ( کرنا ) ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا گیا ، یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم ! کوئی اپنے والدین پر کیسے لعنت بھیج سکتا ہے ؟ فرمایا ! ” ایک آدمی دوسرے آدمی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور ( کوئی آدمی ) اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو ( اس کے جواب میں ) وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے ” . ( بخاری ، مسلم )

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم تمام لوگوں کو اپنے والدین کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے اور ایسی تمام چیزوں سے کوسوں دور رکھے جن سے ان کی شان میں کسی قسم کی کوئی گستاخی کا پہلو پایا جاتا ہو . آمین .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here