عید کا پیغام امت مسلمہ کے نام

0
1624

رشحات قلم : محمد زبیر ندوی شیروری

اللہ کا بڑا ہی فضل و کرم ہوا کہ اُس نے پوری عافیت وصحت یابی کے ساتھ رمضان کے روزوں کو پابندی سے رکھنے کی ہمیں توفیق ارزانی عطا کی اور بھرپور عبادات کا موقعہ فراہم کیا .

قضا و قدر سب اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ، وہ جو چاہے کر سکتا ہے ، وہ کن فیکون کا مالک ہے ، بیماری اور شفا اسی کے ہاتھ میں ہے اللہ نے معمولی مرض سے دنیا کا نظام بدل ڈالا اور واضح کیا کہ اصل بادشاہی اسی کے ہاتھ میں ہے .

کرونا وائرس جیسی بیماری سے دنیا بھر کا ماحول بدل چکا ہے حتی کہ مساجد مقفل کر دئے گئے ہیں ، جس کی وجہ سے عبادات کا پر سکون ماحول حسب معمول باقی نہ رہا اور مسلمان مساجد میں عبادات اور ان کی فضیلتوں کے ساتھ ساتھ تراویح اور اعتکاف سے بھی محروم ہوگئے ، البتہ جن گھروں میں ان کا اہتمام کیا گیا ہو ان کے لئے خیر ہی خیر ہے . اسی طرح اور بھی بہت سی عبادات و فضیلتوں سے وہ محروم ہوئے . مگر یہ عقلمند مومن کے لئے عبرت سے خالی نہیں . پھر بھی ہمیں اللہ کا شکر بجا لانا چاہئے کہ اس نے ہم کمزور بندوں اور بندیوں کے لئے تھوڑی بہت اس سعادت کے حصول کی توفیق بخشی .

رمضان ہم سے مفارقت چاہتا ہے.جس کے الوداع کی صدائیں کانوں میں گونج رہی ہیں.جو ہر مومن فرد بشر سے جدائگی چاہتا ہے ، یہ وہی مہینہ ہے جو بے شمار نعمتوں رحمتوں اور اجر و ثواب کا گنجینہ لے کر آیا تھا ، نا معلوم کتنوں نے اس کا پاس و لحاظ رکھا یا غفلت میں گذارا . اللہ ہم سب کو معاف فرمائے . آمین .

اس مہمان کا نہ ہم سے کما حقہ حق ادا ہو سکا اور نہ ہی ہم نے اس کے آداب کا احترام اور پاس و لحاظ رکھا . پھر بھی اللہ کی ذاتِ عالی سے امید واثق ہے کہ وہ ہماری ان ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کو قبول فرمائے گا اور ان تمام روزوں صدقوں اور عبادتوں اور دیگر نیک اعمال کا بہترین نعم البدل دنیا و آخرت میں اپنی رحمت سے عطا فرمائے گا اوران شاء اللہ اپنی شان کے مطابق نوازے گا .

ضرورت اِس بات کی ہے کہ رمضان کے ان معمولات کو غیر رمضان میں بھی انجام دیں اور اس رمضان کو حیات نو کا آغاز بنائیں ، تاکہ زندگی کے بقیہ ایام بھی دینی نہج پر بسر ہوں ، نیز دل میں تقوی کی صفت پیدا کر کے حتی المقدور گناہوں سے اجتناب کی کوشش کی جائے اور اعمال خیر کی طرف توجہ دی جائے .

اللہ تعالی نے ہم مومن بندوں اور بندیوں کے لئے دو عیدیں طے فرمائی ہیں . ایک عید الاضحی اور دوسری عید الفطر . جسے ہم رمضان کے اختتام پر مناتے ہیں اور دوسری عید الاضحی جسے ہم سنت ابراھیم علیہ السلام سے یاد کرتے ہیں .

حقیقت یہی ہے کہ ان کو غیروں کے تہوار کی طرح نہ گذاریں اور شور و شغف اسراف . فضولیات . رسم ورواج ناچ گانے اور بے حیائی وغیرہ سے اجتناب کریں . کیونکہ آج کل ہمارے بعض مسلمان بھی غیروں کی مشابہت میں ان چیزوں سے اجتناب کی کوشش نہیں کرتے اور اپنے کو ” من تشبّه بقوم فھو منه ” یعنی جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں شمار ہوگا کے مصداق بن جاتے ہیں .

لہذا اس وعید سے اجتناب ضروری ہے کیونکہ مسلمانوں کی عیدیں صرف ایک تہوار کے طور پر نہیں منائی جاتیں بلکہ عبادت کے طور پر منائی جاتی ہیں . غیروں میں خوشی کے مواقع پر اسراف ، گناہ اور فضول کام کئے جاتے ہیں ، جبکہ مسلمانوں میں انفاق فی سبیل اللہ . تکبیرات و عبادات سے اس دن کو مزین کیا جاتا ہے اور اس کو بازاروں میں ضائع کرنے کے بجائے عبادت بنایا جاتا ہے کیونکہ یہ انعام اور مزدور کو اس کی اجرت دینے کا دن ہے اور اپنے رب کو راضی کر کے اپنی مغفرت کرنے کا دن ہے .

اس خوشی کے موقعہ پر اپنے تمام بھائیوں کی خطاؤں کو معاف کیا جائے اور اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کی جائے اور ساتھ ساتھ تمام امت مسلمہ کے لئے دعا کی جائے اور اپنے مرحومین کو بھی ان کی مغفرت کی دعاؤں سے خوش کیا جائے .

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اسی طرح ہر سال عید کی خوشیوں سے مالا مال فرماتا رہے . آمین .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here