کرونا وائرس (COVID-19) و دیگر وبائی امراض میں ” لاک ڈاؤن ” کی شرعی حیثیت

0
1025

مرتب : مولانا ابراہیم فردوسی ندوی

اللہ تعالیٰ نے چیونٹیوں کو اجتماعیت کا شعور بخشا ہے۔ وہ اپنے اپنے علاقوں میں ایک ملکہ کے تحت زندگی بسر کرتی ہیں ۔ اور آنے والے وقت کے لیے غذا جمع کرتی رہتی ہیں۔ اور غلہ کے ہر دانے کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتی ہیں تاکہ وہ نمی سے اُگ نہ جائے ۔ اسی کام کی غرض سے چیونٹیاں سطح زمیں پہ پھیلی ہوئی تھیں اور اپنے کام میں مشغول تھیں ۔ جب ان پر سے سلیمان علیہ السلام کے لشکر کا گذر ہوا تو ایک چیونٹی نے اسے دیکھا اور دیکھتے ہی یہ اعلان کر دیا کہ ” يَاأَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ” اے چیونٹیو ! اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ کہیں سلیمان اور اس کا لشکر تمھیں بے خیالی میں روند نہ دے ۔ ( سورة النمل/ 18 )

سوچئے کہ کیسے اس حقیر سی مخلوق کا ایک ایک فرد اپنی ساری قوم کے لیے فکر مند ہے اور انھیں بچنے کی تدبیر سے آگاہ کر رہا ہے ۔ اس نے جونہی سلیمان علیہ السلام اور ان کے عظیم لشکر جرار کے اپنی قوم کو لا شعوری میں کچل ڈالنے کا خطرہ محسوس کیا تو فورا ’’ لاک ڈاؤن‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے اپنے بلوں میں داخل ہو کر محفوظ رہنے کا حکم دیا .

قرآن مجید میں سلیمان علیہ السلام جیسے جلیل القدر اور صاحب سطوت پیغمبر کے تذکرہ میں اللہ سبحانہ وتعالىٰ کا ایک ادنی سی چیونٹی کے کلام کا ذکر فرمانا اور پھر اس سورہ کا نام ہی ” نمل ” یعنی چیونٹی رکھ دیا جانا اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ چیونٹی کے اس کلام میں اصحاب بصیرت کے لیے بہت سی عبرتیں اور نصیحتیں ہیں ۔ منجملہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب گھروں سے باہر موجود رہنے میں نقصان کا غالب اندیشہ ہو اور گھروں میں گھس جانے سے محفوظ رہنے کا غالب گمان ہو تو گھروں میں بیٹھ جانا ہی زیادہ بہتر اور احوط ہے بلکہ بعض حالات میں ضروری بھی ہے ۔

شریعت اسلامیہ نے اہل اسلام کو بھی اسی منہج کی تعلیم وبائی امراض سے متعلق دیتے ہوئے کہا کہ جب وباء پھیل جائے تو اپنے آپ کو اپنے علاقہ اور گھر تک محدود کر لو ، جیسا کہ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ! ” إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَدْخُلُوهَا ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا مِنْهَا ” یعنی جب تم کسی سرزمیں میں طاعون کی خبر سنو تو اس میں نہ جاؤ اور جب یہ طاعون کسی علاقہ میں پھیل جائے اور تم وہیں موجود ہو تو پھر وہاں سے نہ نکلو ۔ ( صحیح البخاری ، رقم/5728 ) .

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا تو آپ صلى اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” أَنَّهُ عَذَابٌ يَبْعَثُهُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ ، وَأَنَّ اللَّهَ جَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ ، لَيْسَ مِنْ أَحَدٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ ، فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا ، يَعْلَمُ أَنَّهُ لاَ يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ ، إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ شَهِيدٍ “یعنی یہ عذاب ہے اللہ اسے جس پہ چاہتا ہے بھیج دیتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے اسے اہل ایمان کے لئے رحمت بنایا ہے ۔ جو شخص بھی طاعون پھیلنے کے بعد اپنے شہر میں ثواب کی نیت سے صبر کرکے رہے ، یہ جانتے ہوئے کہ اسے وہی کچھ ہو گا جو اللہ نے اس کے لیے لکھ دیا ہے ، تو اس کے لئے شہید جیسا اجر ہوگا ۔ ( صحیح البخاری ، رقم/3474،5734 )

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہی روایت مسند احمد میں ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے کہ ” فَلَيْسَ مِنْ رَجُلٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ ، فَيَمْكُثُ فِي بَيْتِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ الشَّهِيدِ ” یعنی جو شخص بھی طاعون پھیلنے کے بعد اپنے شہر میں ثواب کی نیت سے صبر کے ساتھ ٹہرا رہے ، یہ جانتے ہوئے کہ اسے وہی کچھ ہو گا جو اللہ نے اس کے لئے لکھ دیا ہے ، تو اس کے لیے شہید جیسا اجر ہوگا ۔ ( مسند أحمد ، رقم/26139 )

آپ صلى اللہ علیہ و سلم کے یہ فرامین وبائی امراض سے حفاظت کے لئے رہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں کہ جس علاقہ میں خطرناک موذی وباء پھیل چکی ہو تو بایں طور اس کا ’’ لاک ڈاؤن ‘‘ کیا جا سکتا ہے کہ نہ کوئی وہاں داخل ہو اور نہ ہی کوئی وہاں سے نکلے ۔ تاکہ دیگر لوگ اس سے وباء کا شکار نہ ہو جائیں ۔

یہاں پر کسی کو یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ جو لوگ اس وباء زدہ علاقہ میں موجود ہوں اور ان پر بیماری کے اثرات ظاہر نہیں ہوئے ہوں تو انہیں کیوں وہاں سے نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی کبھی وبائی مرض کے جراثیم تو انسان میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں لیکن انسان کی قوت مدافعت ان جراثیم سے لڑ رہی ہوتی ہے یا پھر وہ جراثیم ابھی مرحلہ حضانت میں ہوتے ہیں جس کی بناء پر بیماری کی کوئی بھی علامت ظاہر نہیں ہوتی ۔ پھر کچھ ہی دنوں بعد جراثیم قوت مدافعت پہ فتح حاصل کرکے یا مرحلہ حضانت سے نکل کر اس انسان کو بیمار کر دیتے ہیں اور علامات مرض ظاہر ہو جاتی ہیں ۔ اسی لئے نبی کریم صلى اللہ علیہ و سلم نے اس خطہ میں موجود صحت مند افراد کو بھی وہاں سے نکلنے کی اجازت نہیں دی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ وہاں سے نکل آئیں اور ان کے جسم میں بیماری کے جراثیم موجود ہوں جو تھوڑے ہی وقت میں بیماری کو ظاہر کر دیں اور یہ وباء دوسرے علاقہ میں بھی داخل ہو جائے ۔

موجودہ دور میں کرونا وائرس کے مسئلہ نے آپ صلى اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان کی حقانیت بھی دنیا پہ آشکار کر دی ہے کہ کرونا کا مریض وائرس کا شکار ہونے کے باوجود کچھ دنوں تک بیماری کی علامات سے بری رہتا ہے ، پھر چند دن بعد بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ اسی طرح کبھی کرونا زدہ علاقہ سے آیا ہوا شخص خود تو اس بیماری سے اپنی مضبوط قوت مدافعت کی وجہ سے بچ تو جاتا ہے لیکن اپنے ساتھ اپنے بدن و لباس پہ کرونا وائرس اٹھا لاتا ہے جسے وہ نئے علاقہ میں پھیلا کر لوگوں کی موت کا سبب بن جاتا ہے ۔

اسی طرح یہ حدیث ’’ قرنطینہ‘‘ کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ اک خاص وقت تک کے لئے مریضوں کو الگ تھلگ کر دیا جائے اور اسی پہ عمل کرتے ہوئے ولید بن عبد الملک بن مروان نے دنیا میں سب سے پہلے قرنطینہ کی داغ بیل ڈالی تھی جسے آج کی اس وباء میں سب سے مؤثر طریقہ علاج مانا جا رہا ہے ۔

اپنے گھروں میں بیٹھے رہنے کی تاکید تو عام حالات میں بھی ہے کہ کوئی بھی انسان بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلے جیسا کہ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ نجات کیا ہے ؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! ” امْلِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ ، وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ ، وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ ” یعنی اپنی زبان اپنے قابو میں رکھ اور تیرا گھر تیرے لئے وسیع ہو اور اپنی خطاؤں پہ رؤو ۔ ( جامع الترمذی ، رقم/2406 ) . کیونکہ فتنوں کے وقت گھروں میں پناہ گزیں رہنا زیادہ ضروری ہو جاتا ہے جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فتنہ کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا! ’’ جب تم دیکھو کہ لوگوں کےعہد و پیمان خراب ہو گئے ہیں اور ان کی امانت میں کمی واقع ہوگئی ہے ‘‘ تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم ! مجھے اللہ آپ پہ قربان کرے ایسے وقت میں کیا کروں ؟ تو آپ صلى اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” الْزَمْ بَيْتَكَ، وَامْلِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ ، وَخُذْ بِمَا تَعْرِفُ ، وَدَعْ مَا تُنْكِرُ ، وَعَلَيْكَ بِأَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِكَ ، وَدَعْ عَنْكَ أَمْرَ الْعَامَّةِ ” اپنے گھر سے چمٹ جا اور اپنی زبان اپنے قابو میں رکھ اور جو تو جانتا ہے اسے اپنا اور جسے تو نہیں جانتا اسے چھوڑ دے ، اور خاص اپنی ذات کے معاملہ پر دھیان دے اور عام لوگوں کا معاملہ چھوڑ دے ۔ ( سنن أبی داؤد ، رقم/4343 )

سیدنا ابو موسى اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم نے فتنہ کا ذکر فرمایا تو ہم نے پوچھا کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ تو آپ صلى اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ! ” كُونُوا أَحْلَاسَ بُيُوتِكُمْ ” یعنی اپنے گھروں کو چمٹ جاؤ ۔ ( سنن أبی داؤد ، رقم/4262 )

جب لوگوں میں امانت تھی اور احکام خداوندی و فرامین رسول صلى اللہ علیہ وسلم کا پاس تھا ، تب انھیں صرف یہ فرامین نبویہ سنا دینا ہی کا فی تھا ، لیکن اب صورت حال مختلف ہے ، لوگوں میں امانت و دیانت کی شدید کمی ہے ۔ وباء سے متأثر افراد جانتے بوجھتے ہوئے بھی ایک علاقہ سے دوسرے تک جانے سے باز نہیں آتے ، اور نہ ہی لوگوں کے اختلاط سے رکتے ہیں ، تو ایسے میں ’’ جبری لاک ڈاؤن ‘‘ ہی واحد حل نظر آتا ہے ۔

واضح رہے کہ لاک ڈاؤن ’’ توکل ‘‘ کے منافی نہیں ہے بلکہ توکل ہی کا حصہ ہے ، جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلى اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ میں اونٹ کا گھٹنا باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں تو آپ صلى اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ ” اس کا گھٹنا باندھ اور توکل کر . ( جامع الترمذی، رقم/2517 ) اور بقول بعض !

توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
نتیجہ اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر

اور اسی طرح رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم نے کوڑھ کے مریض سے دور رہنے کا حکم بھی دیا اور خود بھی دور رہے جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ ، وَفِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ ” یعنی کوئی بیماری متعدی نہیں ، اور نہ ہی بدشگونی جائز ہے اور نہ ہی الو سے متعلق عقیدہ درست ہے ، اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے ، اور جُذام ( کوڑھ ) والے سے ایسے بھاگ جیسے تو شیر سے بھاگتا ہے ۔ ( صحیح بخاری ، رقم/5707 ) .

اس حدیث میں پہلا اور آخری جملہ بظاہر ایک دوسرے کے خلاف محسوس نظر آتا ہے ، لیکن حقیقتاً یہ تعارض ظاہری ہے حقیقی نہیں ۔ اور اسی ایک ہی حدیث سے ایک غلط نظریہ کا رد بھی ہے اور وبائی امراض سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کاحکم بھی ۔ جیسا کہ عَمْرو بن الشَّرِيد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وفدِ ثقیف میں ایک مجذوم ( کوڑھ کی بیماری میں مبتلا ) شخص تھا تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم نے اس کی طرف پیغام بھیجا اور فرمایا ! ” إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ فَارْجِعْ ” یعنی ہم نے تجھ سے بیعت کر لی ہے ، لہذا تو واپس چلا جا ۔ ( صحیح مسلم، رقم/2231 ) .

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی متوکل اور متقی نہیں ہو سکتا ۔ اور توکل کا مفہوم بھی امام الانبیاء صلى اللہ علیہ و سلم سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا ۔ اس بات پر انسانیت میں سے سب سے زیادہ یقین رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم کو ہی تھا کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی اور اللہ کے اِذن کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ اسی طرح آپ صلى اللہ علیہ و سلم اس وائرس تھیوری کو بھی جانتے تھے جسے آج میڈیکل سائنس بھی تسلیم کرتی ہے کہ بیماریوں کے جراثیم مریض کے پاس زیادہ ہوتے ہیں اور ان سے بچنے کے لئے مریض سے مناسب فاصلہ رکھنا اور حفاظتی تدابیر اختیار کئے بغیر اس کے قریب نہ جانا ضروری ہے ۔ اسی لئے آپ صلى اللہ علیہ و سلم نے مجذوم سے ایسے بچنے کا حکم دیا جیسے شیر سے بچا جاتا ہے اور خود بھی عملاً اس کا نمونہ پیش فرمایا کہ جب ایسا مریض اپنی قوم کے وفد میں بیعت کے لئے حاضر ہوا تو اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیعت کرنے اور مجمع عام میں بلانے کے بجائے اسے پیغام بھیج دیا کہ ہم نے اس سے بیعت کر لی ہے اور یہ بھی کہ اب وہ یہاں بالکل نہ ٹھہرے بلکہ فورا یہاں سے چلا جائے .
نبی کریم صلى اللہ علیہ و سلم کے اس تعامل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ و سلم اسباب اختیار کرنے اور پرہیز کرنے کو توکل کے منافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسےتوکل کا حصہ قرار دیتے اور اسے اپناتے تھے ۔ اس لئے ہم پہ لازم ہے کہ ہم بھی ہر ممکن احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط سے مضبوط تر بنائیں اور گھروں میں رہ کر توبہ و استغفار کی کثرت کریں ۔

خلاصہِ کلام یہ کہ شریعت نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور ان احتیاطی تدابیر پر جس حد تک عمل ممکن ہو کرنا چاہئے ، طاعون کے سلسلہ میں اسلامی ہدایت کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ” ذکر الطاعون عند رسول اللہ صلی الله علیہ و سلم فقال! رجز أصیب به من کان قبلکم فإذا کان بأرض فلاتدخلوھا واذا کان بها و انتم بها فلاتخرجوا منها ” (مسند احمد ، رقم/1491 ) یعنی جس علاقہ میں طاعون پھیلا ہو لوگ وہاں نہ جائیں اور وہاں کے لوگ وہاں سے نہ نکلیں بلکہ صبر کرکے ان ہی علاقوں میں رہیں اگر موت مقدر ہوگئی تو شہادت کی موت ہوگی وہاں سے نکلنا موت سے فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے جب کہ اگر کسی کی موت کا وقت آگیا ہے تو وہ موت سے بھاگ نہیں سکتا ہے ۔ قرآن نے کہا ہے کہ اینما تکونوا یدرکم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ ( سورۃ النساء/77 ) تم جہاں کہیں بھی رہو موت تم کو آپکڑے گی اگر چہ کہ تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ بند ہو جاؤ ۔ اور دوسرے لوگوں کو وہاں جانے سے اس لئے منع کیا کہ وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالیں ، کیونکہ وبائی امراض پھیلے ہوئے مقامات پر جانا گویا کہ اپنے آپ کو ہلاکت کے قریب کرنا ہے ۔ اس نقطہ نظر سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وبائی امراض متعدی ہوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے وبائی امراض کے پھیلے ہوئے علاقوں میں جانے سے منع کیا گیا ۔ آج جو بہت سے ملکوں میں ( lock down ) لاک ڈاؤن کیا گیا ہے کہ کوئی دوسرے ملکوں سے نہ آئے اور اس ملک کا کوئی باہر نہ جائے تو درحقیقت یہ اسلام کا ہی نظریہ ہے جو اس نے چودہ سو سال پہلے لوگوں کے سامنے وبائی امراض سے نمٹنے کے لئے پیش کیا تھا . اگر حالات بہت زیادہ خراب ہوجائیں اور وبائی امراض کثرت سے پھیلنے لگیں تو لاک ڈوان کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کے عین موافق ہے ۔

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here