کورونا وائرس کے حالات میں مساجد کے نظام کو بہتر بنانے میں ان کے ذمہ داران کا کردار

0
1558

از : مولانا محمد زبیر ندوی شیروری

مسجد اللہ کا ایک ایسا پاکیزہ گھر ہے جہاں پر انسانوں کو اسلامی زندگی ، آپسی اتحاد و اتفاق ، ایمان و اخلاق کی درستگی ، روح کی اصلاح ، خالق کی اطاعت اور مخلوق سے محبت اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے .

در اصل مسجد پوری امت مسلہ کے لئے ایک اسلامی مرکز و محور اور ایک دینی درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے ، لہذا یہ مسلمانوں کی عبادات کی مقدس جگہ اور خلوت میں عبادت ، ذکر و اذکار اور تلاوت وغیرہ جیسے اعمال صالحہ سے رب کائنات کو راضی کرنے کی بہترین جگہ بھی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو زمین میں سب سے پسندیدہ جگہ مسجدیں اور ناپسندیدہ جگہ بازار ہے .

مساجد برکتوں اور رحمتوں کے نزول اور آفات و بلاؤں سے نجات کا ایک اہم ذریعہ ہیں ، لہذا جو رحمتیں ہمیں مساجد سے ملتی ہیں وہ کہیں اور سے نہیں مل سکتیں ، یہی وجہ ہے کہ مؤذن کی اذان سنتے ہی مساجد کا رخ کرنے والوں کے ایماندار ہونے کی شہادت دینے کی تعلیم دی گئی ہے ، اس والہانہ کیفیت کی روشن مثال مسجد حرام اور مسجد نبوی میں ملتی ہے .

کورونا وائرس کی وجہ سے حالات میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور دنیا بھر میں خوف و ہراس چھایا ہوا ہے ، اس سے بچاؤ اور تحفظ کے لئے جو تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں وہ ایک حد تک ضروری بھی ہیں ، مگر لوگ خصوصاً مسلمان ان تدابیر کو اختیار کرنے میں کچھ زیادہ ہی حد سے تجاوز کر گئے ، اگر ہم صحت و تندرستی کی فکر کے ساتھ ساتھ آخرت میں سرخروئی و شادمانی کے لئے بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے اور اس جہنم سے بھی بچنے کی کوشش کرتے جس کا ایندھن انسان اور جنات بنیں گے تو یہ زیادہ بہتر اور نفع بخش سودا ہوتا ، اللہ تعالیٰ سب سے پہلے راقم الحروف کو اس کی توفیق عطا فرمائے . آمین .

کورونا وائرس جیسی مہلک بیماری سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا نہایت ضروری ہے ، لیکن امت مسلمہ موجودہ حالات میں مساجد سے دئے جانے والے دینی پیغامات سے محروم ہوچکی ہے ، ہم حالات کے تناظر میں بیشمار باتوں کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ان میں سے چند چیزیں ایسی ہیں ، جن سے متعلق عوام میں بیداری پیدا کرنا بہت ضروری ہے .

آج کل آئے دن مساجد میں بہت سارے ڈرامے ہوتے رہتے ہیں ، مثلاً اگر کوئی ماسک لانا بھول جائے تو اس پر ذلت و حقارت کی نگاہیں ڈالی جاتی ہیں اور وہ شخص شرمندگی کے باعث مسجد میں آنے سے کترانے لگتا ہے ، آخر ایسا کیوں اور کس لئے ہو رہا ہے ؟ جب کہ اسلام نے ہمیں احتیاطی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے نتیجہ کو اللہ کے سپرد کرنے کی تعلیم دی ہے ، نہ کہ ان پر کلی اعتماد و بھروسہ کرنے کی ، کیونکہ ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز نفع و نقصان پہونچانے میں اللہ کے حکم کی محتاج ہے ، لہذا ہمیں ان باتوں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے اور ساتھ ساتھ ہر ایک کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ اس کا کوئی بھی فعل کسی کی ذہنی یا ذاتی اذیت کا سبب نہ بن جائے .

جب ہم اسباب پر کلی اعتماد کرنے لگتے ہیں تو ہم میں سے بعض اس تعلق سے بہت سخت رویہ بھی اختیار کرنے لگتے ہیں جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ لوگ نماز کے لئے نہیں بلکہ ماسک کی نگرانی کے لئے مسجد جا رہے ہیں اور اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اگر اس طرح کوئی شخص مل جائے تو اسے بے تُکی باتیں سنائی جائیں یا اس کے خلاف جماعت کے ذمہ داروں کو اکسایا جائے ، یہ کھیل ذمہ داروں اور مصلیوں کے مابین پورے زوروں کے ساتھ چل رہا ہے ، ہر کوئی ایک دوسرے کے خلاف شکوہ اور نفرت آمیز و توہین آمیز باتیں کر رہا ہے اور مسجدیں بے ادب و بے سلیقہ عبادت گذاروں سے پریشان ہیں ، جی ہاں ! ہمارے معاشرہ میں ایسا ہی ہورہا ہے ، وہ مسجدیں جہاں سے الصلوۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر کا پیغام سنا کر ہدایت کی تپش سے لوگوں کے دلوں کو گرمایا جاتا تھا وہاں بعض ناسمجھ و بے ادب لوگ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مشغول نظر آتے ہیں ، جس کی وجہ سے بعض نمازی احباب اِس طرح کے رویوں سے مسجد ہی کو خیر باد کہہ کر دوسری مساجد کا رخ کرتے ہیں ، بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اگر کوئی مسجد میں تلاوت بھی کر لے تو یہ بات بھی ناظرین اور ذمہ داروں کو ہضم نہیں ہوتی ، گویا ان پر کوہ گراں ٹوٹ پڑا ہو ، بعض ہر بات میں اپنا لوہا منوانے کی تاک میں لگے رہتے ہیں اور لگائی بجھائی کا کام کرنے کو باعثِ فخر سمجھتے ہیں ، گویا کہ انھیں اس عمل پر تاج پوشی یا شال پوشی کی جائے گی ، ایسا ماحول بذات خود نہیں بنا ہے بلکہ انسان کی چرب زبانی اور بد اخلاقیوں کا نتیجہ ہے ، حال تو یہ ہے کہ مسجد کے کمپاؤنڈ کے باہر ابھی نکلے بھی نہیں ہیں کہ باہم ناچاقیاں اور چہ میگوئیاں عام ہونے لگتی ہیں ، جو آئے دن طول ہی پکڑتی جا رہی ہیں ، بعض علاقوں کے ذمہ دارانِ مساجد اپنی اپنی فکر حیات میں مصروف نظر آتے ہیں حالانکہ دوسری جگہوں پر مساجد کی پابندیاں رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی ہیں مگر بعض جگہوں پر روز افزوں شدت ہی شدت برتی جارہی ہے ، یہ بات تو اپنے نزدیک بھی بجا اور قابلِ عمل ہے کہ نمازی مسجد میں باوضو آئیں ، ماسک ساتھ لائیں اور سوشل ڈسٹنس کا بھر پور خیال رکھیں لیکن سوء اتفاق اگر کوئی بھول کر ماسک نہ لائے تو اسے حکمت عملی اور بہترین اخلاق سے سمجھایا جائے نہ کہ اس پر شور شرابہ اور ہنگامہ کھڑا کیا جائے ، مگر یہاں حال تو یہ ہے کہ ذمہ داران تو ذمہ داران خود مصلیان بھی آپس میں بحث و مباحثہ کرتے نظر آتے ہیں ، نت نئی باتیں کانوں تک پہنچتی ہیں اور نئے نئے تجربات و مشاہدات ہوتے رہتے ہیں ، ان ناساز گار حالات میں ضرورت اس بات کی تھی کہ تمام ذمہ دار آپسی اتحاد و اتفاق سے جملہ ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی نبھاتے تاکہ کمیٹی کی جانب سے مصلیوں کو بہترین انتظام کے ساتھ نماز کی ادائیگی اور ذکر و تلاوت میں سکون میسر ہو اور دوسروں کے لئے مشعلِ راہ ہو اور ہر کام حکمت عملی سے انجام پاتا رہے ، مگر یہاں پر ہر کوئی سنجیدگی کے بجائے سخت رویہ اختیار کرتا نظر آتا ہے ، بعض ذمہ دار ایسا ناروا سلوک کرتے ہیں گویا ہفت اقلیم کی بادشاہت مل گئی ہو ، جب کہ مساجد سے امن کا پیغام ملنا چاہئے تھا وہیں سے ذمہ داران اور مصلیان کی جانب سے آئے دن بے ادبیاں اور غلط امور مشاہدات میں آرہے ہیں ، لہذا ہمیں مساجد کے مطالبات ، اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے بھرپور کوشش کرنی چاہئے .

ایسا بھی نہیں کہ عوام ذمہ داران کی ذمہ داریوں کے احساس سے غافل ہو گئی ہو بلکہ ذمہ داران خود اپنی ذمہ داریوں میں اتنے آگے نکلتے جا رہے ہیں کہ مساجد کے اصل اغراض و مقاصد سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی مسئولیات کا زور حکومتی تدابیر کو نافذ کرنے میں لگا رہے ہیں اور اخلاقیات کا درس بھولتے جا رہے ہیں ، ایک وقت تھا کہ لوگ مساجد میں جوق در جوق آتے تھے ، لیکن آج وہی ہمارے بعض بھائیوں کی بد اخلاقیوں ، بے سود باتوں اور ناروا سلوک سے متنفر ہو گئے ہیں ، ان کے قلوب مجروح ہو چکے ہیں ، ایسے مواقع پر بے شمار باتیں جماعت کے تعلق سے کہی جاتی ہیں ، تلخ نوائی معاف ! مساجد اللہ کے گھر ہیں کسی کی وراثت و جاگیر نہیں ، ذمہ دار بفضل اللہ محض خدمات کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں ، جو اخلاص کے ساتھ اپنا کام اور خدمات انجام دیتے ہیں ، جس کا اجر ان شاء اللہ آخرت میں ضرور ملے گا اور اہل دنیا آپ کی خدمات کو ان شاء اللہ ضرور یاد رکھیں گے ، یہ الگ بات ہے کہ ہر ذمہ دار کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے ، مگر یہ نہیں کہ انسان میں نفرت و عداوت کا ذریعہ بن جائے ، مگر افسوس! ذمہ داران مساجد نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کی ذمہ داری امام ، مؤزن اور خادمین کو ان کی ماہانہ تنخواہ دینا ، مسجد کی مرمت اور چندہ کی اصولی نیز سالانہ رپورٹ وغیرہ پیش کرنا ہے ، جبکہ اس کا پیمانہ وسیع ہے ، یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ اگر کسی کا چندہ مکمل نہ ہو تو اسے کمیٹی میں شمولیت کا حق حاصل نہیں ، جبکہ چہرہ پر داڑھی بھی نہ ہو تو اسے شمولیت کا حق حاصل یے ، اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بہتر ہے کہ کمیٹی میں شمولیت ، دین کے اصولوں پر ہو ، اگر ایسا ہوگا تو ملت کی صحیح رہنمائی و رہبری ہو سکتی ہے ، مگر آج کل مساجد اور اداروں کے لئے جو انتظامی کمیٹیاں تشکیل پاتی ہیں ، اس کی بناء چند باصلاحیت احباب کو چھوڑ کر باقی غیر قابل افراد پر مشتمل ہوتی ہے ، نتیجتاً کمیٹیوں میں بعض دفعہ نامناسب و ناسازگار حالات پیش آتے ہیں ، نفرتوں کی دیواریں کھڑی ہوجاتی ہیں ، ہونا یہ چاہئے تھا کہ کمیٹی میں کچھ افراد ایسے ضرور رہتے جو مسجد میں امام صاحب کے اتفاقاً نہ پہونچنے پر کم از کم وقتیہ نماز پڑھا سکتے ، ورنہ ایسے غیر قابل انسان کی شمولیت کس کام کی ؟؟؟؟ پھر یہی احباب کوستے پھرتے ہیں جن کے اندر خود اپنی کم مائیگی اور ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہوتا ، جبکہ ہمارے اسلاف نے خون جگر دے کر مسجدوں اور دینی اداروں کو ترقی دلائی تھی ، ان نیک دل و پاکیزہ نفس ہستیوں کا ہر عمل دوسروں کے لیے شمع ہدایت ہوتا تھا لہذا وہ سب کے لیے تابندہ نقوش چھوڑ گئے ہیں ، مگر آج کل چند باصلاحیت احباب کو چھوڑ کر باقی عام لوگ کمیٹیوں میں ہوتے ہیں ، حالانکہ معاشرہ کی ترقی کے لئے قابل و باصلاحیت افراد ، علماء کرام اور مفید مشوروں کی اشد ضرورت ہوتی ہے ، مگر افسوس صد افسوس کہ آج کل ہر کوئی اپنے آپ کو ایک بہترین فنکار سمجھ رہا ، لہذا مجھے اس وقت حدیث کا وہ قطعہ یاد آرہا ہے کہ ” إذا وُسِّدَ الأمر إلى غير أهله فانتظر الساعة ” ( الصحيح البخاري ) . یعنی جب ذمہ داریاں نااہل افراد کو سونپی جانی لگے تو قیامت کا انتظار کرو .

آج مذکورہ حدیث موجودہ حالات پر پوری طرح صادق آرہی ہے اور قرب قیامت کی علامات صاف صاف ظاہر ہو رہی ہیں ، بعض احباب کا خیال ہے کہ اگر ہم جماعت و مدارس کے ذمہ دار نہ بنیں تو شاید یہاں کا رأس المال اور مساجد کی جملہ رقم کوئی اور لوٹ لے جائیں گے یا ہم سے بہتر جماعتوں اور اداروں کو کوئی چلا ہی نہیں سکتا اور ہم سے زیادہ بھروسہ مند انسان مل ہی نہیں سکتے ، گویا انھیں کسی الگ دھرتی سے لایا گیا ہو ، جس وجہ سے علماء کی سرپرستی ضروری نہیں سمجھتے اور کمیٹیوں میں شمولیت روا نہیں رکھتے ، میں اس بات کی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ علماء کی شمولیت سے کمیٹی سو فیصد کامیاب کہلائی جائے گی ، مگر اتنا ضرور ہے کہ ان سے دین کی بنیادوں پر صحیح رہنمائی ملے گی .

یاد رکھیں کہ صالح معاشرہ اس سماج کو کہتے ہیں جس میں نیک صفت انسان بستے ہوں اور ان کا تحفظ ہوتا ہو
، اس میں معاشرہ کو پروان چڑھانے والے علماء ، حُفاظ ، أطباء ، اساتذہ ، انجینئر ، وکلاء اور دیگر باصلاحیت افراد موجود ہوں ، جو معاشرہ کی ترقی کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں ، ٹھیک اسی طرح کسی بھی ادارہ و جماعت کے لئے مذکورہ انسانوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے جو اس کے معاون بنیں ، اور ہچکولے کھاتی ہوئی کشتیوں کے ملاح بن کر انھیں ڈوبنے سے بچا سکیں اور انھیں منزل مقصود تک پہونچا سکیں .

لہذا صالح معاشرہ کے لئے اس کے ذمہ دارن کا صالح اور خوش اخلاق ہونا ضروری ہے ، چونکہ افراد کے مطابق ہی اس کے حالات بھی اچھے یا برے ہوا کرتے ہیں ، ہمیں یہ بھی بات یاد رکھنی چاہئے کہ کامیابی کے لئے اصل چیز جمعیت یا سرمایہ نہیں ہوا کرتی بلکہ اخلاص و للہیت ہوتی ہے .

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے افکار و کردار میں جدت اور وسعت لائیں ، اپنے عمل کے دائرہ کو وسیع سے وسیع تر بناتے چلیں اور اس کے لئے عوام الناس کا اعتماد اور تعاون حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں ، کام کرنے کے طریقوں کو بدلیں ، سب کا تعاون حاصل کریں، اور کمیٹی کے لئے اسلامی بنیادوں پر افراد کا انتخاب کریں ، دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ اور قابل و باصلاحیت افراد کو ہی کمیٹیوں میں شمولیت کا حق دیں ، دینی و دنیاوی تعلیمات سے واقف لوگوں کو ترجیح دیں ، وقتاً فوقتاً دیگر تجربہ کار ، ماہر اور مخلص شخصیات کی رہنمائی لیتے رہیں اور اپنی نشستوں میں اعزازی ممبران کی حیثیت سے انھیں مدعو کرتے رہیں اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کام کریں ، پہلے معاشرہ کی اصلاح کی فکر کریں ، ہر مسجد کے ذمہ داران اپنے علاقوں کے مصلیان کو مسجد سے جوڑنے اور غیر شادی شدہ لڑکے و لڑکیوں اور بیواؤں و بے سہارا عورتوں کی فکر کریں ، غرباء و مساکین اور بیماروں کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کریں ، ان ہی چیزوں کو بروئے کار لانے کے لئے ہمارے اسلاف نے قدم بڑھائے تھے اور قربانیاں پیش کی تھیں ، جنھیں ہم نے آج بھلا دیا ہے ، لہذا مساجد کے تمام ذمہ داروں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمیں اسلاف کے نمونہ کو اختیار کرنا ہے اور ان کے نقش قدم پر چل کر ان کے اعمال کو اجاگر کرنا ہے اور اپنے رب سے سچی محبت کا ثبوت دینا ہے ، اپنی قوم سے غیر جانبدارانہ سلوک اور ان سے نرمی و دوستی کا معاملہ کرنا ہے ، پھر اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یہی جماعتیں اور کمیٹیاں ساری انسانیت کے لئے خیر کا باعث بنیں گی .

اللہ ہم سبھوں کو مذکورہ باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے . آمین .

نوٹ : امژو زون ٹیم کا مضمون نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں .

مؤرخہ 7/محرم الحرام 1442 ھ مطابق 26/اگست 2020 ء بروز بدھ

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here