اسلام میں منگنی کا تصور اور ہمارا معاشرہ

0
3628

از : محمد زبیر ندوی شیروری

نکاح کے امور میں سے ایک امر منگنی بھی ہے جو عقد نکاح سے پہلے ہوتا ہے . اسلام میں منگنی کا ثبوت ملتا ہے اس کے کئی دلائل ہیں۔

(1) اللہ تعالی کا فرمان ہے: *ولا جناح عليكم فيما عرضتم به من خطبة النساء*
( البقرة :235 ) ترجمہ : اور تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم عورتوں کو اشارے کنایہ میں نکاح کا پیغام دو ۔

( 2 ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کو شادی کا پیغام دیا تھا اور ان سے منگنی کی تھی (بخاری :4793 )

( 3 ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضي اللہ تعالی عنہا سے منگنی کی تھی ۔ ( صحیح بخاری : 4830 )

مذکورہ دلائل کی روشنی میں منگنی مشروع ہے ، لہذا منگنی ہونے کے بعد بغیر کسی عیب کے قول و قرار سے مکرنا جائز نہیں ہے ۔ ہاں اگر فریقین میں سے کسی پہ کوئی معقول عیب ظاہر ہوجائے تو منگنی ختم کرسکتا ہے نیز پسند و نا پسند پر بھی انحصار ہے .

منگنی کے تعلق سے اگر ہم آج کے ماحول اور معاشرہ پر نظر ڈالیں گے تو بہت ساری پیچیدگیاں ، خامیاں اور بے شمار رسم و رواج ہمیں آج کی منگنیوں میں نظر آتے ہیں . روزمرہ کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی دو فریقوں ، اداروں یا محکموں میں معاہدہ ہوتا ہے تو وہ آپس میں ملاقات کرتے ہیں ، منگنی کی رسم بھی صدیوں سے چلی آ رہی ہے البتہ شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں مگر منگنی کا تصور کسی نہ کسی صورت میں ضرور پایا جاتا رہا ہے . جسکی حکمت ایک دوسرے کو باقاعدگی سے جان لینا اور ایک دوسرے سے متعارف ہونا ہے ۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جانبین کو قریب سے دیکھ کر شادی کا معاملہ طے کرنے یا انکار کرنے میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے .

شادی سے پہلے لڑکی (منگیتر) کو دیکھنا دکھانا مسنون ہے چنانچہ مغیرہ بن شعبہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجنے والا ہوں ، آپ نے فرمایا کہ جاؤ اسے جاکر دیکھ لو ، کیونکہ ایسا کرنا تم دونوں کے مابین زيادہ استقرار ( محبت اور رشتے کی مضبوطی ) کا باعث بنے گا ۔( صحیح ابن ماجہ : 1524)

اسلامی اعتبار سے منگیتر کا ہتھیلی اور اس کا چہرہ دیکھنا جائز ہے مگر بعض جگہوں میں کم علم رکھنے والے مرد و خواتین اپنے اپنے ماحول کے تحت بدن کا حصہ تک کھول کر دیکھتے ہیں . یہ کام کہیں لڑکا انجام دیتا ہے تو کہیں منگنی میں آنے والی خواتین انجام دیتی ہیں جو سراسر گناہ کا کام ہے . کبھی لڑکی کو چلنے کیلئے کہا جاتا ہے اور عجیب عجیب طریقوں سے جانچا جاتا ہے . جس کو آنے والے مرد و خواتین آگے سے اور پیچھے سے دیکھ لیتے ہیں . پھر لڑکے کو خلوت کی چھوٹ دی جاتی ہے تاکہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جان لیں ، یہ حرام کام ہے.منگنی کے بعد لڑکی سے رابطہ فون پہ بات چیت اور اس کے ساتھ ادھر ادھر تفریح کے لئے نکلنا جائز نہیں . بسا اوقات کھلی چھوٹ سے شادی پہ برا اثر پڑتا ہے اور شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی جسمانی تعلق تک قائم کر لیتے ہیں . یہ زنا کاری ہے جسے اسلام نے حرام ٹہرایا ہے۔کچھ لوگوں نے منگنی کے نام پہ لڑکیوں کو دیکھنا ، دعوت کھانا ، تحائف حاصل کرنا اپنا مشغلہ بنالیاہے . ایسے لوگوں کے لئے شادی کا پیغام محض ایک بہانہ ہوتا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں غریب گھر کی بیٹی یا خوبصورتی سے محروم لڑکی کی شادی ایک چیلنج بن جاتی ہے ، سینکڑوں کی تعداد میں لوگ لڑکے کی طرف سے دیکھنے آتے ہیں ، اورجہاں ایک طرف کھاپی کر مزید نقصان کر چکے ہوتے ہیں وہیں طرح طرح کے عیب نکال کر سماج میں اس کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں . اگر منگنی کا یہی مطلب ہے تو اسلام ایسی منگنی کی اجازت نہیں دیتا . پیدائش اللہ کی قدرت ہے.وہ جس طرح چاہتا ہے رنگت و جسامت کے اعتبار سے پیدا فرماتا ہے . یہاں بات صرف پسند و نا پسند کی ہے اگر پسند ہو تو مبارکباد دے . اور بصورت دیگر اس کی عیب جوئی اور معاشرہ میں اس کی خامیوں کو بیان کر کے اسے بدنام کرنے سے احتراز کریں . تاکہ آپ نہیں تو کوئی اور اسے اپنی ازدواجی زندگی میں شامل کرسکے . ورنہ آج کل مرد و خواتین جب اپنے بیٹے کیلئے بطور رشتہ کسی لڑکی کے یہاں جاتے ہیں تو لڑکے کی ماں شیر بن جاتی ہے اور طرح طرح کی بے مطلب باتیں اور خامیاں بیان کرتی ہے ، جس سے اچھا خاصا رشتہ بنتے بنتے رہ جاتا ہے اور پھر زندگی میں برے نتائج نمودار ہونے لگتے ہیں، اس کے بر عکس جب وہی ماں اپنی بیٹی کیلئے جب کہیں سے رشتہ آتا ہے تو وہ چوہا بن جاتی ہے . کیونکہ اب دوسرے لوگ اس کی بیٹی میں عیب تلاش کرتے ہیں . یہ بدلہ ہے اپنے کرتوتوں کا جو ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس کے مصداق ہوتا ہے . یہ ایک ایسی بیماری ہے جسمیں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں بالخصوص عورتیں . جبکہ ضررت صرف پسند و نا پسند کی ہے نہ کہ عیب جوئی اور خامیاں نکالنے کی .

ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺍﺳﻼﻣﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﮕﻨﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻮﺋﻲ ﻣﺤﺪﺩ ﭼﻴﺰ ﺑﯿﺎﻥ ﻧﮩﻴﮟ ﮐﯽ ﮔﺌﻲ ﺟﻮﻣﻨﮕﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻣﻨﮕﻨﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺳﺐ ﻋﺎﺩﺍﺕ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻢ ﻭﺭﻭﺍﺝ ﮨﯿﮟ ﺟﻮﻣﻨﮕﻨﯽ ﮐﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﺍﻭﺭﺧﻮﺷﯽ کی مناسبت سے کئے جا رہے ہیں ﺍسی طرح ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ہدﯾﮧ ﺍﻭﺭﺗﺤﻔﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﺩئے ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﺻﻞ ﻣﻴﮟ ﻣﺒﺎﺡ ﮨﯿﮟ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﻨﮕﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﻴﮟ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺷﺮﯾﻌﺖ میں ﻣﻤﺎﻧﻌﺖ آئی ہو ﯾﺎ اسکی حرمت آئی ہو . ﺍسی ﻣﯿﮟ ﻣﻨﮕﻨﯽ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻮﭨﮭﯽ ﮐﺎ ﺗﺒﺎﺩﻟﮧ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﺎ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﺟﺴﮯ ﺑﻌﺾ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﮈﺑﻠﮧ ﮐﺎﻧﺎﻡ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ . ﺗﻮﯾﮧ ﺍﯾﺴﯽ ﺗﻘلید ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻢ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻋﯽ ﻣﺨﺎلفت ﭘﺎﺋﻲ ﺟﺎﺗﯽ ہے . کیونکہ ﺍﺱ ﺭﺳﻢ ﻣﯿﮟ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﯾﮭﻮﺩ ﻭﻧﺼﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭﮬﻨﺪؤوں ﻭﻏﯿﺮﮦ سے ﻣﺸﺎﺑﮩﺖ ﮨﮯ ، ﯾﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭﻧﮧ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ . ﻧﺒﯽ کریم ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﮨﮯ‏.ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻃﺮﯾﻘﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺣﺘﯽ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﮔﻮﮦ ﮐﮯ ﺑﻞ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ . دوسری جگہ یوں ارشاد ہے کہ ” من تشبه بقوم فھو منه” کہ جو جس کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا اس کا شمار اسی میں ہوگا . اسی طرح ” المر أ مع من أحبہ” کہ آدمی کا حشر اس شخص کے ساتھ ہوگا جس سے اس نے محبت کی ہوگی .

منگنی کے تعلق سے کچھ ضروری ہدایات

ﻣﻨﮕﻨﯽ کے مباح امور میں سے یہ ہے کہ جب ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﻣﻨﮕﻨﯽ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺳﺘﺨﺎﺭﮦ ﮐﺮﮮ . ﺟﯿﺴﺎﮐﮧ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﻧﺒﻮﯼ ﮨﮯ”ﺟﺐ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﻛﺴﯽ ‏( ﻣﺒﺎﺡ ‏) ﻛﺎﻡ ﻛﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﻛﺮﮮ ﺗﻮ ﺩﻭ ﺭﻛﻌﺎﺕ ﻧﻔﻞ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﮯ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻋﺎ ﻛﺮﮮ( ﺑﺨﺎﺭﯼ : 6382 ‏)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ﺩﯾﻨﺪﺍﺭ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺩو جیسا کہ روایت ہے” ﻋَﻦْ ﺃَﺑِﻲ ﻫُﺮَﻳْﺮَﺓَ ﺭَﺿِﻲَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻨْﻪُ ﻋَﻦْ ﺍﻟﻨَّﺒِﻲِّ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻗَﺎﻝَ : ﺗُﻨْﻜَﺢُ ﺍﻟْﻤَﺮْﺃَﺓُ ﻟِﺄَﺭْﺑَﻊٍ : ﻟِﻤَﺎﻟِﻬَﺎ ، ﻭَﻟِﺤَﺴَﺒِﻬَﺎ ، ﻭَﻟِﺠَﻤَﺎﻟِﻬَﺎ ، ﻭَﻟِﺪِﻳﻨِﻬَﺎ ، ﻓَﺎﻇْﻔَﺮْ ﺑِﺬَﺍﺕِ ﺍﻟﺪِّﻳﻦِ ﺗَﺮِﺑَﺖْ ﻳَﺪَﺍﻙَ ” (ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﯿﮧ) ﺗﺮﺟﻤﮧ : حضرت ﺍﺑﻮ ﮨﺮﯾﺮﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ روایت ہے ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ( تے ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﭼﺎﺭ ﺍﺷﯿﺎﺀ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺎﻝ ، ﺣﺴﺐ ﻧﺴﺐ ، ﺣﺴﻦﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ کی ﻮﺟﮧ ﺳﮯ ، ﺩﯾﻦ ﺩﺍﺭ ﮐﻮ ﭘﺎ ﻟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﺧﺎﮎ ﺁﻟﻮﺩ ہوں ۔

ایک روایت میں ہے کہ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺎﺑﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ﮨﯿﮟ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” ﻓﻬﻼ ﺑﻜﺮﺍً ﺗﻼ ﻋﺒﻬﺎ ﻭتلاعبك” ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﻴﻪ ‏ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﮐﯿﻮﮞ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﻨﻮﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ، ﻭﮦ ﺗﻢ ﺳﮯ ملاعبت کرتی ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺍﺱ ﺳﮯ ملاعبت کرتے ۔‏ یعنی نکاح کنواری سے کرو تاکہ زندگی کا لطف اٹھا سکو اور دین و دنیا کا فائدہ ہو .اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے بابت فرمایا کہ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﭽﮧ ﺟﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼکرو :
” ﺗَﺰَﻭَّﺟُﻮﺍ ﺍﻟﻮَﺩُﻭﺩَ ﺍﻟﻮَﻟُﻮﺩَ ، ﻓَﺎِﻧِّﯽ ﻣُﮑَﺎﺛِﺮ ﺑِﮑُﻢُ ﺍﻷُﻣَﻢَ” ( ﺃﺑﻮﺩﺍﻭﺅﺩ ) ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺗﻢ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﭽﮯ ﺟﻨﻢ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻭ ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺩﯾﮕﺮ ﺍﻣﺘﻮﮞ کے ﻣﻘﺎبلہ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻣﺖ ﮐﯽ ﮐﺜﺮﺕِ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﭘﺮ ﻓﺨﺮ ﮨﻮﮔﺎ ۔

لہذا ہمیں ہر معاملہ کو خواہ وہ منگنی کا ہو یا نکاح کا ، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انجام دینے کی کوشش کرنی چاہئے اور رسم ورواج سے حتی الوسع و حتی المقدور اجتناب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ معاشرہ سے غلط رسم و رواج کا خاتمہ و ازالہ ہو سکے . آمین .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here