معاشرہ کی برائیوں کے محرکات اور ان کا تدارک

0
8912

از : محمد زبیر ندوی شیروری

اگر ہم معاشرہ کی برائیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ آج معاشرہ مختلف قسم کی بیشمار برائیوں میں گھرا ہوا ہے ۔ اگران پرروک نہ لگائی گئی تو ضلالت و گمراہی کی مزید شاہراہیں کھلتی چلی جائیں گی اور معاشرہ مزید تباہی و بربادی کی طرف جائے گا اور ہمارے لئے دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب ، اسلامی معاشرہ کے چہرہ پر بدنما داغ اورہمارے اور ہمارے والدین کے لئے رسوائی و شرمندگی کا باعث بنے گا. آج معاشرہ بداخلاقی ، حرام کاری اورلغویات و فضولیات کا شکار بن چکا ہے ۔ جس کی وجہ سے گناہ کو معیوب نہ سمجھنا ایک عام بات بن گئی ہے ۔ لہذا ہمیں ان محرکات پرغوروخوض کرنا ہوگا جو معاشرہ کے بگاڑ کا باعث بن رہی ہیں ۔

اس کے بہت سارے محرکات ہوسکتے ہیں ۔ منجملہ ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات سے دوری اور لاعلمی کی وجہ سے فضولیات اور لغویات میں اپنے اوقات کو ضائع کرنا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے قلوب و اذہان کو اللہ و رسول ﷺ کے تذکروں کے بجائے ڈرامہ و فلم بینی ، موسیقی و ناچ اور فضول و لغو چیزوں میں سکون ملتا ہے ۔ کثرت گناہ کی وجہ سے ہمارے قلوب زنگ آلود اور ایمانی حلاوت سے محروم ہو چکے ہیں ۔ جس کے نتیجہ میں آج ہر جگہ فساد ، دشمنی و عصبیت ، لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ ، کینہ کپٹ ، غیبت ، چغلی ، ظلم و زیادتی ، بغض وعداوت ، حسد ، مفاد پرستی وخود غرضی حق تلفی و دھوکہ دہی ، بددیانتی و جھوٹ ، حرص ، طمع و لالچ ، شراب نوشی ’ جوا بازی ، زناکاری چوری، ڈاکہ ، رشوت ، سود وغیرہ عام بات بن چکی ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی بھی نظام ہو، اس میں خرابی اور کمزوری ضرور آتی رہتی ہے۔ اس لئے ہر نظام کو برقراراور قابل عمل رکھنے کے لئے اس کی اصلاح کا نظام بھی ضروری ہے۔ انسانی معاشرتی نظام جو انتہائی وسیع اور ہمہ گیر ہے وہ بھی مختلف اقسام کے خارجی اور داخلی عوامل کے اثرات قبول کرتا رہتا ہے ، لہذا اس میں بھی مختلف قسم کی خرابیاں آتی رہتی ہیں . البتہ یہ ضروری نہیں کہ ہرمعاشرہ کی برائی کی نوعیت ایک ہی ہو بلکہ وہ مختلف بھی ہو سکتی ہے ۔ اب ہمیں اپنے معاشرہ کی ہرائیوں کا اس ناحیہ سے گہرائی سے جائزہ لینا ہوگا کہ اس میں وہ کون سی برائیاں پنپ رہی ہیں جن کی طرف ہماری توجہات زیادہ ترمبذول نہیں ہوتی ان میں سے ایک معاشرہ کے نوجوانوں کا اجتماعی بگاڑ ہے کیونکہ اجتماعی بگاڑ بذات خود ایک برائی ہے اسی لئے آپ نے مدینہ میں جاکر اس اجتماعی ماحول کو بنانے کی طرف توجہ دی اورایک ایسا ماحول بنایا کہ جس سے برائیوں کا سدباب ہوسکے لہذا منافقین بھی اپنے آپ کو اس ماحول سے رنگانے پر مجبور ہو گئے اور باجماعت نماز ادا کرنے پر مجبور ہوگئے ۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اجتماعی ماحول کو جماعت کے دائرہ میں رہ کر حتی المقدور بہتر بنانے کی کوشش کریں تا کہ ہماری نئی نسل اجتماعی ماحول کے برے اثرات سے محفوظ رہ سکے ۔ ہم نے جب بیڑی سگریٹ کی خرابی کو معمولی سمجھا توموجودہ نسل افیوم و گانجہ جیسی نشہ آوار چیزوں کی عادی بن گئی اورانہیں جرم وجرائم کی دنیا میں ڈھکیلتی چلی گئی ۔ لہذا انہیں اس دلدل سے باہر نکالنا بےحد ضروری ہے ، اگر ہم انہیں اس دلدل سے باہر نہیں لاتے ہیں تو ہمارے درمیان مسلم نوجوانوں کی کثیر تعداد تو رہے گی لیکن وہ مومنانہ صفات سے خالی ہوگی ۔ اورنشہ ایک ایسی برائی ہےجو تمام برائیوں کی جڑ ہے، ہمارے کچھ نوجوان نشہ آورچیزوں کے عاد ی بن چکے ہیں اوران کا نشہ انھیں جرم و جرائم پر مجبورکررہا ہے جس کے نتیجہ میں وہ رات کو دیر سے لوٹنے ہیں اور والدین کی پریشانی کا باعث بنتے ہیں. اب ہمیں اصلاح معاشرہ کے لئے ابھی سے اپنے نونہالوں کی صحیح تربیت کے ساتھ انھیں خوشگوارماحول فراہم کرنا ہوگا ۔ اگرہم نے اس پر توجہ نہیں دی تو یقینا آنے والی نسلوں کو ہم خود تباہ کرنے کے ذمہ دار ہوجائیں گے.

برائیوں کے بہت سارے اسباب ہو سکتے ہیں منجملہ ان میں سے ایک دین کی بنیادی تعلیمات سے دوری ہے اس لئےﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻢ کے حصول پربہت زور دیا گیا ہے ﺣﺘﯽ ﮐﮧ سب سے ﭘﮩﻠﯽ ﻭﺣﯽ بھی ‘‘ اقرا ’’ کے لفظ سے نازل کی گئی البتہ اس علم سے مراد علم نافع ہی ہے جس سے انسان کو اللہ کی معرفت نصیب ہواور وہ اپنے آپ کو اس کے دین کے تابع بنا لے اگر علم سے یہ فائدہ حاصل نہ ہو جائے تو وہ علم تو ہو سکتا ہے لیکن علم نافع نہیں ہو سکتا لہذا اللہ کے رسول نے بھی ایسے علم سے پناہ مانگی ہے اور اپنی امت کو بھی ایسے علم سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی اور انھیں یہ دعا سکھلائی ‘‘ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ ’’ اے اللہ میں تجھ سے ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے ۔ لہذا کسی بھی تعلیم سے انسان دین اسلام پرعمل کرنے کے تعلق سے آزاد نہیں ہوسکتا ۔ آج ﮨﻢ ﻋﺼﺮﯼ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ اپنے ﺑﭽﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﯿﻮﮞ سے اسکول کے بہانے ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻭﺍتے ، ﺭﻭﺯﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﻮﺍتے ، ﺍﻭﺭنہ ہی ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ کرواتے ہیں ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ ، ﮨﻮﻡ ﻭﺭﮎ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ، ﭘﺮﻭﺟﯿﮑﭧ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ اورﺍﻣﺘﺤﺎﻥ وغیرہ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﺮﻧﯽ ﮨﮯ ۔ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﻃﻠﺒاء ﻋﺼﺮﯼ ﺩﺭﺱ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﮍﮪ ﮐﺮﻧﮑﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺳﮯ ﻧﺎﻭﺍﻗﻒ ہے ۔ ہم آپ کو ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﮐﭩﺮ،ﺍﻧﺠﯿﻨﺌﺮ، ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮاور وکیل ﺑﻨﺎنے سے منع نہیں کرتے بلکہ دین کی بنیادی تعلیمات کے ساتھ ان علوم کے حصول کی بات کرتے ہیں ۔

ﻣﻌﺎﺷﺮتی بگاڑ کے اسباب میں سے ایک سبب ﭨﯽ ﻭﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﭩﺮﻧﯿﭧ بھی ہے.جس کے غلط استعمال کے باعث معاشرہ میں روحانی اور جسمانی امراض ﭘﮭﯿﻞ ﺭہے ﮨﯿﮟ ، کیونکہ ہرکوئی انٹرنیت کے استعمال میں بے باک ہے. جس کی وجہ سے وہ ﻓﺤﺶ ﻭﻋﺮﯾﺎﻧﯿﺖ اﻭر ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کر رہا ہے. بالخصوص نوعمر مردوزن اور طلباء و طالبات اس کے عادی بنتے جارہے ہیں ۔.جس کے نتیجہ میں آج معاشرہ میں بے شرمی کے عجیب عجیب نت نئے واقعات مشاہدات میں آرہے ہیں.جوماں باپ کی صحیح تربیت اور صحیح نگرانی نہ کرنے کا نتیجہ ہیں ۔ لہذا ایسی گندی چیزوں ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺭ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﻭﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺎﺹ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ کریں ﺗﺎﮐﮧ ﯾﮧ ﺟﺪﯾﺪ ﻭﺳﺎﺋﻞ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﺎﺗﺤﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﺕ کے بگاڑﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﻧﮧ ﺑﻨﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻢ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﺎﺗﺤﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔

ﺍﺻﻼﺡ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﮟ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ﺭﺳﻮﻝصلی اللہ علیہ وسلم ﮐﯽ ﺣﯿﺎﺕ ﻃﯿﺒﮧ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﺮیں ، اور ان تعلیمات سے رہنمائی حاصل کریں ۔

ﺍﺻﻼﺡ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺩﻭ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺍﺻﻮﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ، ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﯽ،ﺟﺲ ﭘﺮ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﻋﻤﻞ ﻧﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﻮﮞ ، ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻗﻮﻝ ﻭ ﻓﻌﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻀﺎﺩ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ،ﺟﻮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﺍﺻﻼﺡ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺍﺻﻼﺡ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮ، یہی وجہ ہے کہ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺳﻘﺮﺍﻁ، ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﺭﺳﻄﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺴﻮﮞ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺣﮑﻤﺎء ﺍﻭﺭ ﻓﻠاﺴﻔاء ﺍﻭﺭ ﻣﺼﻠﺤﯿﻦ ﺟﻮ ﻭﻋﻆ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﺍﻭﺭ ﻋﻘﻞ ﻭ ﺩﺍﻧﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﭘﺮاپنا لوہا منوایا ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺛﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺍ ﺍﯾﺴﺎ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺩﮐﮭﺎﺗﮯ ﺭﮨﮯ،ﻟﯿﮑﻦ ﺧﻮﺩ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﻭﮦ ﺭﺣﻢ ﻭ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺳﺒﻖ ﭘﮍﮬﺎﺗﮯ ﺭﮨﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﺧﻮﺩ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ کو ستاتے رہے ۔ ﺍﺻﻼﺡ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ میں آپ ﮐﺎ دوسرا بنیادی اصول جھوٹ سے اجتناب کرتے ہوئے سچائی اور حق کے راستہ پر چلنا تھا لہذا آپ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﮭﻮﭦ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﯽ ﺗﻠﻘﯿﻦ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ اور ﺧﻮﺩ بھی اپنی ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﮭﻮﭦ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻮﻻ ﺍﻭﺭاپنےﺻﺤﺎبہ کو بھی ﺍﺱ ﺭﺫﯾﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﻓﻌﻞ ﺳﮯ ﺍﺣﺘﺮﺍﺯ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﺎﮐﯿﺪ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺭﮨﮯ، ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻭﺻﻒ ﺑﻌﺜﺖ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻔﺎﺭ ﻭﻣﺸﺮﮐﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺻﺎﺩﻕ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯿﻦ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺟﮭﻮﭦ معاشرہ کے بگاڑ کی ایک اہم ترین برائی ہے یہی وجہ ﮨﮯ کہ اﺳﻼﻡ میں لعنت کے مستحقین میں جھوٹے کو بھی شامل کیا گیا ہے

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے دین کی خدمت کے لئے قبول فرمائے اور ہمیں اصلاح معاشرہ کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here